اسرائیل کی ایک عدالت نے فلسطینی شہریوں کی جانب سے ایک گاؤں کو مسمار کرنے کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی ہے، جس کے بعد صہیونی فوج کے لیے مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء میں واقع "ام الحیران” گاؤں کو مسمار کرنے کا آئینی اختیار مل گیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق "ام الحیران” قصبے کے فلسطینی شہریوں نے صہیونی مجسٹریٹ عدالت کا فیصلہ اسرائیل کی سینٹرل کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مجسٹریٹ عدالت کا سنہ 1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے اسرائیلی علاقوں میں فلسطینیوں کے 33 قصبات کی مسماری کا فیصلہ غیرآئینی اور غیرقانونی ہے۔ لہٰذا عدالت دوسری عدالت کے فیصلے کے خلاف نیا فیصلہ جاری کرے، تاہم جمعرات کے روز ہونے والی سماعت میں عدالت نے "ام الحیران” قصبے کی مسماری روکنے کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی۔
مقامی فلسطینی شہریوں اور "مرکزعدالہ” کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ وہ سینٹرل کورٹ کا فیصلہ صہیونی سپریم کورٹ میں چلینج کریں گے۔ خیال رہے کہ مقبوضہ فلسطین کے 33 دیہات کو مسمار کر کے وہاں کے تمام فلسطینی باشندوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ 10 سال قبل سنہ 2003ء میں جاری کیا گیا تھا۔
اسرائیل ام الحیران قصبے میں ایک جگہ "حیران ٹاؤن” کے نام سے یہودیوں کے لیے ایک کالونی تعمیر کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ فیصلے پرعمل درآمد نہ ہونے کی وجہ معاملے کا عدالت میں زیرسماعت ہونا تھا۔
یاد رہے کہ "ام الحیران” گاؤں فلسطین کے ان بدقسمت دیہات میں شامل ہے جہاں پر اسرائیل کے قیام کے وقت بڑے پیمانے پر نہتے فلسطینیوں کا خون بہایا گیا تھا۔ اس قصبے سے1956ء میں صہیونی فوج نے طاقت کے ذریعے ہزاروں فلسطینیوں کو بے دخل کرتے ہوئے ان کی املاک پرقبضہ جما لیا تھا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین