ایک ہزار سے زائد فلسطینی اسیران کے بدلے ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ انہیں کل بروز منگل رہا کر کے مصراور پھر اسرائیل بھیجا جائے گا، اس موقع پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ گیلاد شالیت رہائی کے وقت فوجی لباس میں ملبوس ہو گا یا عام لباس میں۔
فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے دو سال قبل جاری کی گئی ایک ویڈیو میں شالیت نے فوجی وردی پہن رکھی تھی تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کل رہائی کےموقع پر بھی انہیں اسی فوجی وردی میں رہا کیا جاتا ہے یا نہیں۔
اس سے قبل چھبیس جون 1984ء میں شام اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر اسرائیل نے اپنے قیدیوں کو فوجی ہیئت اور لباس میں رہا کرنے کی قید لگائی تھی۔ اس معاہدے کی رو سے تین اسرائیلی فوجیوں کی رہائی اور پانچ فوجیوں کے نعشوں کی حوالگی کے بدلے شام کے 388 اسیران اور 74 فوجیوں کو رہا کیا گیا تھا۔
شالیت کی رہائی کی حالیہ ڈیلنگ میں رہائی کے وقت شالیت کےفوجی لباس میں زیب تن ہونے کے کئی معنی ہونگے۔ اول یہ کہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ شالیت کی فوجی تھا اور یہ اسرائیلی فوج کے خلاف حملوں میں ملوث مزاحمت کاروں سے لڑتا ہوا گرفتار ہوا تھا۔ دوسرا پیغام یہ ملے گا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور اسرائیل کے درمیان دشمنی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ تیسرا یہ کہ گیلات شالیط کو فوجی ھیئت میں رہا کروا کر اسرائیل یہ جتانا چاہے گا کہ مزاحمت کاروں کے ساتھ کیا جانے والا حالیہ معاہدہ درست ہے۔
تاہم اگر گیلاد شالیت کو فوجی لباس پہنا کر رہا کیا جاتا ہے تو فلسطینی مزاحمت کاروں سے ’’غیرقانونی جنگجوؤں‘‘ کا لیبل کسی حد تک ختم ہو جائے گا، کیونکہ اسرائیل انہیں جنگجوؤں سے معاہدہ کر کے اپنے فوجی کو رہا کروا رہا ہو گا۔