انسانی و اسیران حقوق کے ایک معروف ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے 1987 ء میں فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف پہلی انتفاضہ تحریک سے لیکر اب تک پچیس سالوں کے دوران دو لاکھ ننانوے ہزار فلسطینیوں کو گرفتار کرکے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ خیال رہے کہ پہلا انتفاضہ آٹھ دسمبر سن 1987 کو شروع ہوا تھا۔پیر کے روز جاری کردہ اپنی رپورٹ میں ”اسیران مطالعاتی مرکز، فلسطین” نے بتایا کہ انتفاضے کے آغاز سے لیکر سن 1994 کے وسط میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام تک صہیونی فورسز نے دو لاکھ دس ہزار فلسطینیوں کو پابند سلاسل کیا۔ دس ہزار افراد کو سن 1994 سے ستمبر 2000 تک کے عرصے میں گرفتار کیا گیا جبکہ سن 2000 تا 2005 دوسرے انتفاضے اور اس کے بعد اب تک کے عرصے میں 79 ہزار فلسطینی صہیونی فورسز کی جانب سے قید و بند کی صعوبتوں کا نشانہ بنے۔اس طرح پہلے انتفاضے سے لیکر اب تک دو لاکھ ننانوے ہزار فلسطینیوں کو اپنے وطن کی آزادی کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں شدید مشکلات اور مصائب کا شکار کیا گیا ہے۔ گرفتار کیے جانے والوں میں خواتین، بچوں اور بزرگوں کے علاوہ فلسطینی اراکین پارلیمان، صحافی، اساتذہ اور طلبہ بھی شامل ہیں۔اسیران مطالعاتی مرکز نے حماس کی پچیسویں سالگرہ کی مناسبت سے تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو گرفتار کرنے کی پالیسی 1967سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ بے گناہ فلسطینیوں کو گرفتار کرنے کا مقصد ان کو خوفزدہ کرنا اور فلسطینی قوم کو اپنے وطن کی آزادی کے لیے جہاد اور قربانیوں سے باز رکھا ہے۔ تاہم فلسطینیوں کے خلاف تاریخ کے بدترین جرائم کرنے کے باوجود اسرائیل کو اپنے ہدف میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین