اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اپنی شرائط کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے”وفاء اسیران” نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس اپنے حقوق کے لیے مسلح مزاحمت سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے پارلیمانی بلاک اصلاح وتبدیلی کے رکن اور جماعت کے ترجمان مشیرالمصری نے کہا کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان جانتا ہے۔ حماس نے قوت اور مزاحمت کے ذریعے ایک ہزار ستائیس فلسطینیوں کو صہیونی دشمن کی جیلوں سے آزاد کرایا ہے۔ فلسطین کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اسرائیل کے اسی ہٹ دھرم مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئےاس کے ساتھ ڈیل کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن کے ساتھ مرضی کی شرائط کےتحت ایک صہیونی فوجی کے بدلے میں ایک ہزار سے زائد اسیران کی رہائی صرف حماس ہی نہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم کی فتح ہے۔ اس وقت دنیا میں حماس کی اس کامیابی کو پوری فلسطینی قوم کی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔
مشیرا لمصری کہہ رہے تھے کہ حق کی معمولی قوت نے بھی باطل کی بھاری طاقتوں پر فتح پائی ہے۔ اس کا مظاہرہ آج بھی دیکھا جا رہا ہے۔ مادی اعتبار سے حماس اوراسرائیل کے درمیان کوئی تقابل نہیں لیکن حماس کی جرات اور استقامت کے سامنے صہیونی دشمن کوجھکنا پڑا ہے۔ آج دشمن اپنی تمام تر وسائل کے باوجود حماس کی شرائط کے تحت فلسطینیوں کی رہائی پر مجبور ہوا ہے۔
خیال رہے کہ اتوار کے روزاسرائیل نے حماس کے ساتھ کی گئی ایک ڈیل کے تحت ساڑھے پانچ سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا تھا۔ یہ ڈیل دو ماہ قبل طے پائی تھی جس کے تحت حماس نے اپنے قبضے میں موجود صہیونی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں اپنے ایک ہزار ستائیس اسیران واسیرات کو رہا کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اسرائیل نے دو مراحل میں فلسطینی قیدی رہا کیے۔ ان میں پہلے مرحلے میں چارسو پچہتر اسیران کو رہا کیا گیا تھا۔