ایجادات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والی برطانوی فاؤنڈیشن نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا سماجی بہبود کے لیے استعمال کرنے والے 100 شخصیات اور ان کے تیار کردہ موبائل پروگرامات کا انتخاب کیا ہے۔ جسے Most Inspiring Uses of Digital Technology for socilal good2015 عنوان دیا گیا ہے۔ اس فہرست میں پروفیسر حسام حائیک کا تیار کردہ پروگرام بھی شامل ہے۔ یہ ایک موبائل فون ایپلی کیشن ہے جو نظام تنفس کے ذریعے کسی بھی انسان میں پائی جانے والی دو درجن سے زاید بیماریوں کی تشخیص کرسکتا ہے۔
برطانوی ادارے’’ Nominet Trust ‘‘ لندن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ادارے نے مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948 ء کے علاقے الناصرہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر حسام حائیک کی تیار کردہ موبائل اپیلی کیشن ’’سنیفون‘‘ کو رواں سال کی 100 بہترین اپیلی کیشنز میں شامل کیا ہے جنہیں سماجی بہبود کے شعبے میں استعمال میں لا کرفائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی سائنس دان کی تیار کردہ’’سنیفون‘‘ ایک ایسی ایپلی کیشن ہے جسے اسمارٹ فون میں انسٹال کرنے کے بعد اس کی مدد سے انسانی سانس کے ذریعے بیماریوں کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔ یہ سسٹم موبائل فون کی مدد سےانسانی سانس میں ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد سانس کے ذریعے ہی انسان میں پائی جانے والی بیماریوں کی تشخیص میں مدد دیتا ہے، جس کی روشنی میں ان امراض کا علاج ممکن بنایا جاسکے گا۔
خیال رہے کہ پروفیسر حائیک کی یہ پہلی منفرد ایجاد نہیں بلکہ ڈیجیٹل ٹٰیکنالوجی کے سماجی بہبود کے لیے ان کی خدمات پر انہیں اب تک 52 عالمی ایوارڈ مل چکے ہیں۔
پروفیسر حائیک نے امراض کی تشخیص کے لیے تیار کردہ اپنی منفرد ایجاد کے بارے میں بتایا کہ ’’سنیفون‘‘ کی مدد سے کینسر جیسے مہلک امراض کی نہایت سُرعت کے ساتھ تشخیص کی جاسکے گی۔ اب کینسر کے علاج کے لیے خون کے نمونوں کے ٹیسٹ کرانے کے بجائے محض سانس کی رفتار سے کینسر کی تشخیص کی جاسکے گی۔
انہوں نے بتایا کہ سانس لیتے وقت نہایت چھوٹے چھوٹے ذرات آبی بخارات بن کر ہوا میں اڑتے ہیں جو موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے انسانی سانس میں پائے جانے والی ان علامات کی نشاندہی کرتے ہیں جو مختلف امراض کا موجب بنتے ہیں۔ آبی بخارات میں موجود ذرات کینسر جیسے موذی امراض کی تشخیص اور علاج میں بھی مدد دیتے ہیں۔
پروفیسر نے بتایا کہ ’’سنیفون‘‘ کی مدد سے کینسر کی کئی اقسام سمیت مجموعی طورپر 23 خطرناک نوعیت کی امراض کی تشخیص ممکن بنائی جاسکے گی۔ ان میں چھاتی کا کینسر، بڑی آنت کاکینسر، معدہ کا کینسر، دماغ کا کینسر، گردن کا کینسر، بچہ دانی کا کینسر، اعصابی بیماری پارکن سن، ڈانمنشیا، شریانوں کے جم جانے کی بیماری، تپ دق اور آنتوں کی سوزش ایسی امراض ہیں جن کی تشخیص موبائل فون کی مدد سے کی جاسکے گی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اس وقت 19 اقسام کے ایسے ڈیجیٹیل آلات کے ذریعے امراض کی تشخیص کی جا رہی ہے۔ سینفون اس میں ایک نیا اضافہ ہے جسے انہی آلات کی ایک جدید شکل کہا جا سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر حائیک کا کہنا تھا کہ سینفون کی مدد سے امراض کا ابتدائی مراحل پتا چلا کر ان کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر کا تعلق مقبوضہ فلسطین سے ہے۔ ان کے اس منفرد تجربے اور ایجاد نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطینی قوم دنیا کے کسی بھی میدان میں اپنی ہنر مندی کا بھرپور مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی قوم ایک غاصب ریاست کے خلاف نبرد آزما ہے اور آزادی کے لیے لازوال قربانیوں کا مظاہرہ کررہی ہے تو دوسری طرف تعلیم اور سائنس و تحقیقات کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دینے میں صف اول میں کھڑی ہے۔ پروفیسر حائیک پہلے فلسطینی سائنس دان نہیں جہنوں نے ایک منفرد ایجاد کے ذریعے جان لیوا امراض کی تشخیص کی راہ ہموار کی ہے بلکہ اب تک کئی فلسطینی طلباء و طالبات عالمی جامعات میں اپنی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر کئی عالمی ایوارڈز جیت چکے ہیں۔ ان ہونہار فلسطینیوں میں کئی ایسے کم عمر طلباء بھی شامل ہیں جنہوں نے ریاضی کے میدان میں یورپ جیسے ترقی یافتہ ملکوں کی جامعات میں بھی ناقابل فراموش تحقیقات کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈالا اور اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار کیا ہے۔