بعض اسلامی اور عرب ملکوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہاں جو طبقہ لوگوں پر حکومت کررہا ہے اس کاعوام میں کوئی اثر رسوخ نہیں ہے خاندانی اور موروثی حکومتوں نے اقتدار کو اپنے پنجوں میں اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ فی الحال وہاں عوامی اور جمہوری انداز اور طور طریقے رواج پاتے دکھائی نہیں دیتے، اور جہاں کہیں بظاہر جمہوری نظام حاکم ہے وہاں کچھ ایسے لوگ اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں جن کا ناطہ اپنے عوام سے زیادہ امریکہ سے جڑا ہوا ہے ۔
انہی ملکوں میں ایک مصر ہے کہ جہاں پچھلے تیس برسوں سے حسنی مبارک کرسی اقتدار پر براجمان ہیں اور اپنے بعد اپنے بیٹے جمال مبارک کو اقتدار میں لانے کا خواب دیکھ رہے ہیں گویا مصر میں جمہوری نظام حکومت نہیں بلکہ شہنشاہت حکمفرما ہے اور یہ مصری عوام کے لئے ایک ایسا المیہ ہے کہ جسے وہ کس طرح برداشت کررہے ہیں ان کا خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔ مطلق العنانیت اور 30 سالہ ڈکٹیٹرشپ کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا جمہوریت کا ٹھیکدار، امریکہ صدر حسنی مبارک کو اپنا نور نظر بناتے ہوئے، مراکش ، اردن کا بھی یہی حال ہے جو تھوڑے تھوڑے عرصے بعد امریکی آقاؤں کو خوشی کرنے کے لئے کچھ ایسے اقدامات کر بیٹھتے ہیں کہ جن کو دیکھ بعض اوقات شبہ ہونے لگتا ہے کہ یہ لوگ مسلمان بھی ہیں! غزہ کا المیہ اور اس سے قبل لبنان پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے دوران ان ملکوں نے جو کردار ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن اس کے باوجود یہ ممالک نہایت بے شرمی کے ساتھ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں اور دنیا بھر میں ان کے ہمدردی کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہتے ہیں ۔اس وقت صدر حسنی مبارک امریکی اور صیہونی مشن کی تکمیل کے لئے فلسطینیوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے تمام تر مطالبات سے دستبردار ہوکر امریکی پیشکش کو قبول کرلیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ الفتح کے چیئرمین مرحوم یاسر عرفات نے امریکی منصوبے کو تسلیم کرکے کیا حاصل کرلیا۔ کونسا ایسا معاہدہ ہے کہ جسے خود اسرائیلیوں نے پیش کیا ہو، امریکہ تائید کی ہو، فلسطینیوں تسلیم کیا ہو اور پھر اس پر عمل درآمد ہوا ہو؟قدس کی غاصب صیہونی حکومت کی بنیاد ہی غصب پر ہے وہ تو عظیم اسرائیل کا منصوبہ اپنے سر میں سمائے ہوئے وہ کس طرح بھلا ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرسکتی ہے چاہئے وہ بے اختیار ترین حکومت ہی کیوں نہ ہو ۔لیکن مصر سمیت صیہونی حکومت کے ساتھ ہمدردی رکھنے والی بعض حکومتیں، فلسطینیون کو یہ مشورہ دے رہی ہیں وہ صیہونیوں کی بالادستی کو تسلیم کرلیں۔سوال یہ ہے کہ آخر ان حکومتوں کو اس بات پر اتنا اصرار کیوں ہے کہ، فلسطینی مسلمان! صیہونیوں کی بالادستی کو تسلیم کرلیں!؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خود یہ حکومتیں اپنے سامنے کسی ایسی بااختیار اور مضبوط حکومت کے وجود کو برداشت نہیں کرسکتیں کہ جو جد و جہد اور جہاد کا طویل ماضي رکھتی ہو اس لئے کہ وہ جانتی ہیں کہ ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کی صورت میں خطے کے عوام خصوصا” عربوں کے لئے اس کے گہرے اور دوررس نتائج برآمد ہونگے جس سے ان کا اپنا وجود متزلزل ہوجائے گا اس لئے کہ وہ جانتی ہیں کہ عوام میں تو ان کی جڑیں ہیں نہیں اور امریکہ نوازي کے سبب، ان کے عوام پہلے ہی ان سے متنفر ہیں لہذا جمہور بنیادوں پر جہادی نسل کی جانب سے فلسطین کا اقتدار ہاتھ میں لینے کا مطلب یہ ہوگا ان کے افکار و نظریات فلسطین کرسرحدوں تک محصور نہ رہیں یہ وہ خدشہ ہے کہ جسے یہ حکومتیں اپنے لئے صیہونی حکومت سے زيادہ بڑا خطرہ تصور کرتی ہیں چنانچہ ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ایک ایسی حکومت کی تشکیل پر راضی کرلیں کہ جس کی، اپنی کوئی فوج ہو نہ دفاعی نظام/ اور فلسطین کا صدر ایک میئر کی حیثیت سے شہری اور دیہی نظام چلائے۔فلسطین کی خودمختار انتظامیہ کے پہلے صدر کی حیثیت سے یاسر عرفات کو شروع ہی سے اس بات کا اندازہ تھا کہ وہ فلسطین میں جس حکومت کا انتظام سنبھالنے جارہے ہیں وہ کسی شہر کی میئرشپ اور بلدیاتی نظام سے زيادہ کچھ نہیں، تا ہم وہ یہ سمجھتے تھے انہیں بتدریج وہ سب کچھ مل جائے گا کہ جس کا امریکہ اور اسرائیل نے وعدہ کیا ہے یہی ان کا سب سے بڑا اشتباہ تھا کہ جس کا انہیں بعد میں اندازہ ہوگیا۔ اس وقت ان کے جانشیں محمود عباس ابومازن نے، جو روش اختیار کی ہے وہ کچھ حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے نام نہاد عہدہ صدارت کو طول دینے پر استوار ہے اور ملت فلسطین کے ساتھ ان کا سلوک یہ بتاتا ہے کہ وہ تو محض فلسطین کے امور میں صیہونی حکومت کے نمائندے ہیں اور اس سے زيادہ کچھ نہیں ۔اس لئے کہ وہ جس طرح مسکراکر مسکراکر صیہونی حکام اور اسرائیل کے سب سے بڑے حامی امریکہ سے ہاتھ ملاتے ہیں اور اپنی خدمات پر ان سے داد تحسین وصول کرتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ان کے لئے اس سے زيادہ اچھا گمان اور کوئی کیا ہی نہیں جا سکتا۔بہرحال اس وقت مصر کے صدر حسنی مبارک اپنے پیش رو انور السادات کی طرح ایک ایسا تاریخی مشن انجام دینے کے درپے ہیں جس سے خیانت اور غداری کی بوآرہی ہے ۔انہیں ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کی تشکیل سے زيادہ قدس کی غاصب صیہونی حکومت کو تسلیم کرانے کی جلدی ہے اور چاہتے کہ یہ کام وہ اپنا اقتدار اپنے جانشین کے سپرد کرنے سے پہلے انجام دیدیں البتہ یہ ان کی آرزو، آرزو ہی رہے گی اس لئے کہ ملت فلسطین خیانت اور غداری کا احساس کرچکی ہے اور ہرگز ذلت کا سودا نہیں کرے گی ۔