مرکزاطلاعات فلسطین نے اپنی ایک رپورٹ میں فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے اس ‘قوم دشمن’ طرز عمل پر روشنی ڈالی ہے۔ اگرچہ عباس ملیشیا کی جانب سے شہریوں کے نجی معاملات میں مبینہ دخل اندازی کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ ان میں سے بعض واقعات میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں اور بہت سے منظرعام پر بھی نہیں آ پاتے۔ عباس ملیشیا کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے نجی معاملات میں بلا جواز مداخلت کے دیگر واقعات میں ابو عودہ خاندان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی شامل ہے۔
شادی کی تصاویر گھر میں رکھنا بھی جرم
ابو عودہ بریجیہ کا تعلق مغربی کنارے کے جنوبی شہر بیت لحم کی المعصرہ کالونی سے ہے۔ ابو عودہ کے ایک 21 سالہ بیٹے بنی عودہ کی گرفتاری کے لیے عباس ملیشیا نے ان کے گھر پر چھاپا مارا، تلاشی کے دوران عباس ملیشیا نے اس کا ایک کمپیوٹر اور کئی سی ڈیز قبضے میں لینے کے ساتھ گھر میں موجود اس کی بڑی ہمشیرہ کی شادی کی تصاویر اور ویڈیوز پر مبنی سی ڈیز بھی قبضے میں لے لیں، جب گھر والوں نے عباس ملیشیا سے اس کے اس طرز عمل اور نجی تصاویر قبضے میں لینے پر احتجاج کیا تو محمود عباس کے پالتو نام نہاد پولیس اہلکاروں نے کہا کہ گھر میں شادی کی تصاویر اور ویڈیوز کی سی ڈیز رکھنا بھی ‘جرم’ ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ابو عودہ کا بیٹا عودہ بیت المقدس اوپن یونیورسٹی میں کمپیوٹر پرگرامنگ کے شعبے میں زیرتعلیم ہے۔ وہ اپنی چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ ایک بہن کی شادی ہوچکی ہے مگر اس کی اور دیگر تین بہنوں کی تعلیم کے اخراجات بھی وہی پورے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر روز علی الصباح اپنے بعض دوستوں کے ہمراہ بیت المقدس میں محنت مزدوری کے لیے جاتا ہے۔ اسے کئی بار اسرائیلی فوجیوں نے بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر وہ اسے حراست میں لینے میں ناکام رہے ہیں۔
‘حالات تنگ ہونے پر تعلیم چھوڑنا پڑی’
عودہ کے والد کا بیٹے کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلوانے کا ایک دیرینہ خواب تھا مگر کچھ عباس ملیشیا اور کچھ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے روز مرہ کی بنیاد پر جاری ریاستی دہشت گردی نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔ چنانچہ وہ اپنے بیٹے کو بیرون ملک تعلیم دلوانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بالآخر اس نے بیٹے کو بیت المقدس اوپن یونیورسٹی میں کمپیوٹر پروگرامنگ میں داخل کرا دیا۔ وہ کچھ دیر کے لیے اپنی نصابی کتابیں دیکھتا مگر زیادہ وقت وہ کام کاج اور محنت مزدوری میں صرف کرتا ہے کیونکہ اسے اپنی تعلیم اور اپنی چار بہنوں کی تعلیم کا بوجھ بھی اٹھانا ہے۔ تعلیم کو زیادہ وقت نہ دے پانے کے بعد بالآخر اس نے اپنی تعلیم موخر کردی اور اب سارا وقت مزدوری کرتا ہے۔ وہ نماز فجر کے وقت گھر سے نکلتا اور بیت المقدس میں ایک تعمیراتی کام کی جگہ دن بھر اینٹوں اور گارے سیمنٹ کا کام کرتا ہے۔
اس کے والد نے مرکز اطلاعات فلسطین کو حیرت کے انداز میں بتایا کہ اس کا بیٹا تو ایک اندھیرے میں گھر سے نکلتا ہے اور دوسرے اندھیرے میں گھر لوٹتا ہے۔ ایسے میں بھلا اس کی وجہ سے عباس ملیشیا کے کس قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اس نے آج تک کار سرکار میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی ہے۔
والد نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کے گھر سے نکلنے کے بعد شام کو واپس پہنچنے تک مسلسل اس سے رابطے میں رہتا ہے کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ عباس ملیشیا اور اسرائیلی فوجی اسے کسی وقت بھی نقصآن پہنچا سکتے ہیں۔ وہ بعض اوقات رات کو دس اور گیارہ بجے گھر لوٹتا جس پر اہل خانہ کو سخت پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا لیکن اس کے باوجود عباس ملیشیا اس کی گرفتاری کے لیے بار بار ان کے گھر پر چھاپے مارتی رہی۔
بالآخر دو روز قبل عباس ملیشیا کے اہلکاروں نے اسے گھر سے اٹھا لیا جس طرح دو دن قبل گھر پر چھاپے کے دوران نجی تصاویر بھی ضبط کی گئی تھیں۔
فلسطینی انسانی حقوق کارکن السید فہمی شاھین نے نجی تصاویر ضبط کرنے کے معاملے پر بتایا کہ فلسطینی قانون کسی حکومتی اہلکار یا ادارے کو شہریوں کے نجی معاملات میں دخل اندازی کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا ہے۔ ایسا کرنا نہ صرف فلسطینی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ عالمی قانون کی رو سے بھی ایک جرم تصور کیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کا اصل کام تو شہریوں کی نجی زندگی کا تحفظ کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس میں مداخلت کرکے شہریوں کو پریشان کرنا ہوتا ہے۔
عودہ کی بہنوں کی پولیس سینٹر طلبی
بات صرف بنی عودہ تک محدود نہیں رہی بلکہ عباس ملیشیا کی شہریوں کے نجی معاملات میں مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انہوں نے شادی کی تصاویر ضبط کرنے کے بعد عودہ کی ایک ہمیشرہ ‘بدیعہ’ کو بھی بیت لحم کے ایک پولیس سینٹر میں بلا بھیجا۔
بدیعہ کے والد نے بتایا کہ اس کی بیٹی کو فلسطینی سیکیورٹی اہلکار ایک تھانے لے گئے جہاں اس سے اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کو مالی معاونت کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ بدیعہ نے بتایا کہ اس کا اور اس کے خاندان کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حماس سے تعلق کا الزام بھی بے بنیاد ہے تاہم اس کے باوجود عباس ملیشیا کے اہلکاروں نے اسے گھنٹوں حبس بے جا میں رکھا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین