فلسطین کو اقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر ملک کا درجہ ملنے اور وسط نومبر اسرائیل کی غزہ کی پٹی پرآٹھ روزہ ’بے مقصد‘ عسکری یلغار کے بعد امریکی انٹیلی جنس حلقوں میں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے مستقبل سے متعلق ایک نئی بحث جاری ہے۔
اسی ضمن میں ایک امریکی ادارے کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق امسال نومبر میں غزہ پراسرائیلی حملے میں اسرائیل، حماس کا بال بیکا بھی نہیں کر سکا۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں حماس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس امریکا اور اسرائیل سے نسبتاً قریب سمجھی جانے والی صدر محمود عباس کی جماعت ‘فتح’ سیاسی اور سفارتی محاذوں پر آگے آنے کے باوجود عوامی سطح پر پس منظرمیں چلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح کی مرکزی قیادت عوام سے سخت مایوس دکھائی دیتی ہے۔
امریکا میں نیشنل ڈیفنس اکیڈیمی سے وابستہ دفاعی تجزیہ نگار پروفیسر جارج فریڈمن نے اپنے تجزیاتی مضمون میں فلسطین میں حالیہ سفارتی اور دفاعی پیش رفت کے تناظر میں حماس کے مستقبل کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کا یہ مضمون ‘انٹرنیشنل اسٹراٹفور انٹلیجنس’ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
مسٹر فریڈ من لکھتے ہیں: "حماس اور فتح نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے حریف ہونے کے باوجود ایک دیرپا قومی اتحاد کی تشکیل کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ دونوں جماعتیں تسلیم کر رہی ہیں کہ وہ تنہا سفر نہیں کرسکتیں۔ حال ہی میں صدر محمود عباس اورحماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ خالد مشعل نے ترکی کا دورہ اسی غرض سے کیا تھا تا کہ ترک قیادت کی ثالثی میں دونوں جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ختم کرنےکی سبیل نکالی جا سکے۔”
امریکی تجزیہ نگار کے مطابق: "اسرائیل، حماس کی عوامی مقبولیت دبانےکے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرے گا لیکن خطے کے حالات بالخصوص عرب انقلابات اوراس کے نتیجے میں اسلام پسند قوتوں کے برسراقتدارآنے کے بعد تل ابیب حماس کے بارے میں اپنی پالیسی میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ پڑوسی ملکوں میں دینی جماعتوں کی تقویت اور عوامی پذایرئی حماس کی عوامی مقبولیت میں اضافے کا باعث ضرور بنے گی۔”
فاضل مضمون نگار نے حماس کے سیاسی شعبے کے جلا وطن سربراہ خالد مشعل اوران کے ساتھیوں کی غزہ آمد کوبھی نہایت اہمیت کا حامل قراردیا ہے۔ جارج فرائڈ من رقم طراز ہیں کہ "نصف صدی تک اسرائیل نے جس شخص کا فلسطین میں داخلہ ممنوع کیے رکھا۔ آج وہ کیسے غزہ کی پٹی میں داخل ہوا۔ یہ سب عرب بہاریہ کا ثمر ہے جس نے اسرائیل کو بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کیا ہے ورنہ سابق مصری صدر حسنی مبارک کے دور حکومت میں کوئی جلا وطن فلسطینی لیڈر اس دیدہ دلیری سے کیونکر غزہ کیسے آ سکتا تھا”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "خالد مشعل کی غزہ آمد نے حماس کی رگوں میں ایک نیا خون دوڑا دیا ہے۔ خالد مشعل کی آمد کو فلسطینی عوام ایک نیک شگون قراردیتے ہیں۔ مشعل کے چند روزہ قیام نے حماس کی عوامی مقبولیت کوآسمان تک پہنچا دیا ہے۔ اس کے علاوہ حماس کے یوم تاسیس کے موقع پر جس طرح کا عرب ممالک کیجانب سے ردعمل سامنے آیا اسے بھی حماس کی علاقائی مقبولیت کا مظہر قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ پچیس سال میں حماس کےکسی یوم تاسیس کے موقع پراتنے زیادہ اسلامی اور عرب ملکوں سے وفود مقبوضہ فلسطین نہیں آئے جتنے 25 ویں یوم تاسیس کے موقع پر آئے۔ ان وفود کی آمد حماس کے ساتھ یکجہتی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کھلے عام تعاون کا بھی اعلان ہے۔”
جارج فرائڈ مین نے حماس اور فتح کے درمیان ماضی میں ہونے والی مفاہمانہ کوششوں کی ناکامی کا بھی تجزیہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کو ماضی میں ایران اور شام کی حمایت حاصل تھی اور بہت سے عرب بادشاہوں کو یہ گوارا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک حماس کے بجائے الفتح کواپنے زیادہ قریب سمجھتے اوراسی کو نوازتے رہے۔ لیکن عرب ممالک میں برپا ہونے والی بہارانقلاب نے فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کا پانسہ بھی پلٹ دیا۔ اب حالات اس کے برعکس ہیں۔ جو ممالک انقلابات کا ثمر چکھ چکے ہیں، وہاں اب فتح کے بجائے حماس کو زیادہ اہمیت مل رہی ہے۔ اب کئی ملکوں میں فتح کی ’’دال گلتی‘‘ دکھائی دنہیں دیتی۔
حماس اور الفتح کے مابین مفاہمت کے امکانات کے بارے میں ترکی کے کردار بارے امریکی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ انقرہ، حماس اور الفتح کو ملانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ترکی صدر محمود عباس پر دباؤ ڈالتے ہوئے انہیں عالمی سفارت کاری کا میدان اختیار کرنے پر مجبور کرے اور غزہ اور مغربی کنارے میں حماس کو انتظامی معاملات میں نہ صرف شامل کرے بلکہ داخلی سطح پر حماس کو ایک با اختیار تنظیم تسلیم کرائے۔
ایسی صورت میں اسرائیل کے لیے یہ ناقابل برداشت ہوگا کہ وہ غزہ کے بعد مغربی کنارے میں بھی حماس کوسیاسی افق پر ایک مؤثر قوت کے طور پر ابھرتا دیکھے۔ اسرائیل آج تک اسی لیے دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کا حامی رہا ہے کیونکہ حماس اور الفتح کے درمیان فاصلے ہی اسرائیل کے مفاد میں ہیں۔ فتح کو اگر یہ خدشہ ہوا کہ مفاہمت کے نتیجے میں اسے مغربی کنارے میں سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا تو عین ممکن ہے صلح کی علاقائی کوششیں ماضی کی طرح بے نتیجہ ہی رہیں گی۔
امریکی تجزیہ نگار نے ترکی، قطر، اردن اور مصر کو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اہم کھلاڑی قراردیا اورکہا کہ مستقبل میں فلسطین کا کوئی بھی نقشہ ترکی اور مصر کی منظوری کے بغیرتسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اپنے تجزیاتی مضمون کے اختتام پرامریکی دانشور کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ طاقت کے استعمال سے وہ حماس کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا بلکہ جب اور جتنی زیادہ طاقت استعمال کی جائے گی۔ حماس کی عوامی اور علاقائی مقبولیت بڑھتی جائے گی۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین