فلسطین میں ایک جانب صدرمحمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ ہر سطح پر بائیکاٹ کے اعلان کی بازگشت سنائی دیتی ہے جبکہ دوسری جانب فلسطینی انتظامیہ کے زیراہتمام فلسطین اولمپک کمیٹی نے بحر متوسط کے آس پاس کے ممالک پر مشتمل اولمپک گیموں میں اسرائیل کی شرکت کی راہ ہموار کر دی ہے۔
مقبوضہ فلسطین سے شائع ہونے والے اخبار”پینوراما” کی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ فلسطینی اولمپک کمیٹی نے اپنی اسرائیلی ہم منصب کمیٹی کے ساتھ حال ہی میں ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے سے قبل بحر متوسط کے قرب و جوار کے کسی ملک کی ٹیم نے اسرائیل کےساتھ کھیلنےسے انکار کر دیا تھا۔ لیکن فلسطینی اولمپک کمیٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ کھلینے کا معاہدہ کر کے صہیونی اسپورٹس کی یہ مشکل حل کر دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ اسرائیل آج تک بحر متوسط کے ممالک کی گیموں میں شمولیت کی سرتوڑ کوششیں کرتا رہا ہے تاہم اسے کسی بھی عرب اور دوسرے ملک نے حمایت کا یقین نہیں دلایا ہے۔ تمام رکن ممالک کی جانب سے دو ٹوک انداز میں اسرائیل کو یہ کہا گیا تھا کہ اس کی ٹیمیں تل ابیب کے ساتھ نہیں کھیل سکتیں، تاہم فلسطینی اتھارٹی کی اولمپک کمیٹی نے اسرائیل کی یہ پریشانی دور کرتے ہوئے اسے ان کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی اور اسرائیلی اولمپک کمیٹیوں کی جانب سے باہمی تعاون کی یادداشت پر دستخط کے بعد فلسطین کے اسپورٹس اور عوامی حلقوں میں شدید بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اولمپک کمیٹی کی جانب سے اسرائیلی کمیٹی کے ساتھ تعاون کا معاہدہ صہیونی ریاست کے ساتھ غیر قانونی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی سازش ہے۔ ایک جانب فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ یہودی بستیوں کی تعمیر پر ہرقسم کے معاملات ختم کر رکھے ہیں اور دوسری جانب اس کی اسپورٹس کمیٹی اسرائیلی اسپورٹس کمیٹی کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدے کر رہی ہے۔