اسرائیل کےایک عبرانی اخبار”یروشلم پوسٹ” نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی صدر محمودعباس کی جماعت "الفتح” کے بعض عہدیدار ایک سال قبل فلسطینی فلم پروڈیوسر”جولیانو میرخمیس” کے قتل میں ملوث ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی اخبار لکھتا ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ جولیانو خمیس کے قتل میں کون کون ملوث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اندھے قتل کے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے کے باوجود مشتبہ قرار دیے گئے افراد کو حراست میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی ان کے قتل کی تحقیقات کا عمل آگے بڑھایا گیا ہے۔
اخبار کےمطابق یورپ کے ایک ملک کے ایک صحافی نے جولیانو کے قتل کی تحقیقات کے لیےایک رپورٹ مرتب کرنے کی کوشش کی، جس پر فلسطینی اتھارٹی کے کئی عہدیداروں نےاسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے کہاکہ وہ جولیانو کے قتل کا کھوج لگانے کی کوششیں ترک کردے۔ فلسطینی اتھارٹی کےعہدیداروں نے کہا کہ جو شخص بھی جولیانو کے قتل کے اسباب، محرکات اور ذمہ داروں کی تلاش کی کوشش کرے گا اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اخبار”یروشلم پوسٹ” نے فلسطینی اتھارٹی کے مجموعی طرز عمل کے بھی خوب لتے لیے ہیں اور کہا ہے کہ جولیانو کے قتل کے سلسلے میں فلسطینی اتھارٹی میڈیا کے سامنے جھوٹ اور دروغ گوئی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سچ کو چھپایا جا رہا ہے اور جھوٹے بیانات جاری کر کے صحافیوں کی توجہ دوسرے مسائل کی طرف موڑی دی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ جولیانو امیر خمیس کو گذشتہ برس جنین شہر میں پراسرار طور پر ان کے گھرمیں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کے بارے میں تاحال کوئی ذمہ دار ہاتھ سامنے نہیں آیا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسرائیل کے ایک اخبار نے الزام عائد کیا ہے کہ جولیانو کے قتل میں فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار ملوث تھے اور وہ اب بھی اس کیس کو دبانے کے لیے کوشاں ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین

