فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطینی کو مستقل رکنیت دینے کی درخواست پر ووٹنگ کے نتائج بھلے کچھ ہوں اس ووٹنگ سے اتھارٹی کا جواز ثابت اور اس کو تحلیل کرنے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔
تیونس میں اپنی رہائش گاہ پر یک پریس کانفرنس کے دوران فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں توقع نہیں ہے کہ اس بار اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کی ان کی درخواست منظور کر لی جائی گی تاہم وہ اس ضمن میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اقوام متحدہ کی رکنیت اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے منافی نہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت مل بھی جائے تو اسرائیل سے اپنا تنازعہ اقوام متحدہ کے فورم کے بجائے مذاکرات کے ٹیبل پر حل کرنے کو ترجیح دیں گے۔
محمود عباس کا یہ بھی کہنا تھا ‘‘ہم واضح بنیادوں پر اسرائیل کے ساتھ مل جل کر رہنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ بنیادیں مشرقی القدس کےدارالحکومت پر مشتمل سنہ 1967ء کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کا قیام اور فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کا حل ہیں‘‘
ان کا مزید کہنا تھا ’’اقوام متحدہ سے رجوع کا مطلب ہرگز کسی فریق بالخصوص اقوام متحدہ کو چیلنج کرنا نہیں، ہمارے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور ہم ان تعلقات کو استوار رکھنا چاہتے ہیں، تاہم ہمیں اس کے ساتھ کچھ باتوں پر اختلاف ہے جسے ہم سفارتی ذرائع سے حل کرنے کے خواہش مند ہیں، ہم تصادم کے ہرگز حامی نہیں تاہم ہم اقوام متحدہ سے یہ اپیل بھی کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے اور اسرائیل کے درمیان سنجیدہ واسطہ کار بنے‘‘
محمود عباس نے اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیم یونیسکو میں فلسطین کے متعلق موقف میں تبدیلی کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے اس بات کی نفی کی کہ اسرائیل ۔ فلسطین تنازع کے حل کے لیے بنائی گئی چار رکنی ثالثی کونسل فلسطین پر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کا دباؤ بڑھا رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ گروپ چار کی جانب سے چوبیس ستمبر کو دیا گیا بیان درست تھا اور وہ اس پر عمل کا انتظار کر رہے ہیں۔ بہ قول محمود عباس گروپ چار کے ساتھ آئندہ ہونے والی ملاقات اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا آغاز نہیں ہے تاہم اس ملاقات کو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان فاصلوں کو دور کرنے کی کوشش اور مذاکرات کے آغاز کی تمھید کہا جا سکتا ہے۔