فلسطین مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے مکانات کو منہدم کرنے اور ان کی جائیدادوں پر قبضے میں سرعت کے لیے اسرائیل کی جانب سے ایک خصوصی ٹاسک فورس کے قیام کا انکشاف ہواہے۔
عبرانی ذرائع اطلاعات کےمطابق صہیونی صہیونی پراسیکیوٹر جنرل ایڈووکیٹ "یریف ابن حاییم” نے بیت المقدس کی ضلعی حکومت اور وزارت داخلہ کے عہدیداروں پر مشتمل ایک خصوصی ٹاسک فورس کے قیام کی منظوری دی ہے۔ یہ کمیٹی مقبوضہ علاقوں بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں فلسطینیوں کے تعمیرشدہ مکانات کا جائزہ لے گی۔ یہ ٹاسک فورس اپنی رپورٹ بیت المقدس کی ضلعی صہیونی حکومت اور وزارت داخلہ کو فلسطینیوں کے مکانات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرے گی۔ خاص طور اجازت کےحصول کے بغیر تعمیر کیے گئے مکانات کی فہرستیں مرتب کرنے کے بعد انہیں گرانے کا حکم دیا جائے گا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کے لیے تازہ ٹاسک فورس کے قیام کا یہ اقدام انتہا پسند یہودیوں کی بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ کی تنقید کے بعد عمل میں لایا گیا ہے۔ اسرائیل میں شدت پسند تنظیموں اور انتہا پسند حلقوں کی جانب سے ضلعی حکومت کو فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری میں "‘سست روی” کا مظاہرہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ بیت المقدس میں مقامی حکومت کی غفلت کے نتیجے میں نہ صرف بہ ان کے غیرقانونی مکانات کے انہدام کا سلسلہ تعطل کا شکار ہےبلکہ فلسطینی تیزی کےساتھ مزید مکانات تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے ایک انگریزی اخبار”اسرائیل ٹوڈے” نے اپنی ایک رپورٹ میں پراسیکیوٹر جنرل ایڈووکیٹیریف ابن حاییم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘لیگل فورم” کی درخواست کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس اور دیگرعلاقوں میں تعمیرات سے متعلق قانون کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، جسے جلد ہی نافذ کردیا جائے گا۔
بن حاییم کا کہنا ہے کہ بیت المقدس اور اسرائیل کے زیرانتظام تمام شہروں اور دیہات میں مکانات کی تعمیرسے متعلق اس قانون کو لاگو کرنے کی ذمہ داری وزارت داخلہ کی ہو گی ۔ اس کےعلاوہ بیت المقدس کی ضلعی انتظامیہ بھی نئےقانون کے نفاذ میں شریک ہوگی۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کے لیے خصوصی اختیارات کی حامل ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز گذشتہ جنوری سے کنیسٹ کی کمیٹی برائے تحفظ ماحولیات اور وزارت داخلہ کےہاں زیرغور تھی۔ فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری میں تیزی لانے کے لیے یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے غیرقانونی مکانات کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ سنہ 2011ء کے آخر تک مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کے 8 اور مغربی بیت المقدس میں 67مکانات گرانے کا حکم دیا گیا، جبکہ اسی سال1166 غیرقانونی مکانات کی موجودگی کی درخواستیں موصول ہوئیں۔
بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ شہرمیں فلسطینیوں نے 18 ہزار غیرقانونی مکانات تعمیر کر رکھے ہیں،جنہیں وقتا فوقتا گرانے کا عمل جاری ہے۔ دوسری جانب اسرائیل میں یہودی آباد کاری کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ بیت المقدس میں اسرائیل کی ضلعی حکومت نے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کے لیے "بھاری” بجٹ مختص کیا ہے۔ یہودی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے سنہ 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس پر قبضے کے بعد عرب اور یہودی اکثریتی علاقوں کو نسل پرستانہ پہلو پر تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کی ہر قسم کی املاک کو تباہ کرنا اور یہودیوں کی املاک کو آئینی تحفط فراہم کرنا اب ہر اسرائیلی حکومت کی اہم پالیسی بن چکی ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین