امریکا کی معروف خاتون صحافی ھیلن تھامس نے فلسطینی قوم کی جانب سے جمہوری انداز اسلامی تحریک مزاحمت کو انتخابات میں کامیاب کروانے پر اسرائیلی فکرمندی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا تھا ’’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ فلسطینی قوم نے حماس کو منتخب کیا تو اس سے اسرائیل کو کیا تکلیف ہے‘‘
تھامس نے کثیر الاشاعت اسرائیلی روزنامے ’’یدیعوت احرونوت‘‘ کے دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اسرائیل کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم گرداننے کے عمل کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ’’ میں تشدد کے خلاف ہوں، لیکن سمجھتی ہوں کہ اس کی جانب فلسطینی رغبت اپنے سلب کردہ حق کی واپسی کےلیے ہے‘‘
چھ کتابوں کی مصنفہ اور امریکا کے معروف میڈیا گروپ ہرسٹ کارپوریشن کے اخباروں کے لیے 2000 تا 2010 تک کالم لکھنے والی تھامس کا کہنا ہے کہ وہ یہودیوں کے نہیں بلکہ صہیونیت کے خلاف ہیں۔ ’’میں آج بھی کہتی ہوں کہ یہودیوں پر دوسروں سے چھینی گئی اشیا کو واپس لوٹانا لازم ہے۔‘‘
1943 سے 2010 تک صحافت کے پیشے سے وابستہ رہنی والیا کانوے سالہ امریکی صحافیہ کا مزید کہنا تھا ’’ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور چالیس کی دہائی کے آخر میں یہودیوں کے لیے اپنے گھروں کی جانب لوٹنا ممکن تھا، اس وقت ان کے کئی وطن تھے، جنگ ختم ہو چکی تھی چنانچہ انہیں کسی دوسری قوم کے وطن پر قبضہ کرنے کی کچھ بھی ضرورت نہ تھی‘‘
خیال رہے کہ تھامس نے نصف صدی تک وائٹ ہاؤس کی صحافیہ کےطور پر کام کیا ہے۔ وہ دس امریکی صدور کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتی رہی ہیں، 2010ء میں اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل وہ اسرائیل پر شدید تنقید کرتی رہی ہیں۔