مراکش میں قائم عراق اور فلسطین کی نصرت کی ایکشن کمیٹی کے کوآرڈینیٹر خالد السفیانی کا کہنا ہے کہ اسرائیل خطے میں اسلامی تنظیموں کی کامیابی سے شدید خوفزدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی حکومتوں کے قیام کے باعث اسرائیل کا یہ خوف برقرار رہنا چاہیے۔
معروف تجزیہ کار نے مراکش کے اخبار ’’التجدید‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی کا مسئلہ فلسطین پر براہ راست اثرانداز ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مراکش کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا مسئلہ فلسطین کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور فلسطین کی آزادی کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور آئندہ بھی پارٹی کا یہ موقف برقرار رہے گا۔ مراکش کی وحدت و اصلاح تحریک کے میڈیا سیل نے ایک اسرائیلی اسٹڈی کی تفصیلات بتائی ہیں جس کے مطابق تل ابیب کے ’’قومی سکیورٹی کے مطالعاتی مرکز‘‘ نے صہیونی ریاست کی سکیورٹی کی اسٹریٹجی کے متعلق آگاہ کیا ہے۔ اس رپورٹ میں مراکش، تیونس اور دیگر ممالک میں اسلامی جماعتوں کی کامیابیوں پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان ممالک میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی نے اسرائیل کے عرب ممالک سے خوشگوار تعلقات کے امکانات کے اطراف سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
مطالعاتی رپورٹ میں عرب اور اسرائیل کے مابین ہونے والے مذاکرات کے راستے پر بات کی گئی اور کہا گیا کہ عالمی برادری نے اس ضمن میں دو اقدامات اٹھائے۔ 1994ء میں نیٹو معاہدے میں شامل اراکین اور سات ممالک ایک مذاکراتی فریم ورک تشکیل دیا گیا۔ ان ممالک میں مراکش اور اسرائیل بھی تھے۔ اسی طرح یورپی یونین نے سنہ 1995ء میں بارسلونا فریم ورک تشکیل دیا، جس میں یورپ یونین کی جانب سے بحیرہ روم کے جنوبی ممالک سے سیاسی، سکیورٹی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون کی بات کی گئی تھی۔
اسرائیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی کے بعد مذکورہ بالا دونوں فریم ورکس پر عمل درآمد مشکل ہو گیا ہے۔ ان ممالک کی حکومتیں کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو قبول نہیں کرینگے۔