فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے عالم اسلام اورعرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بیت المقدس کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت کا فراموش ہونے سے بچانے کے لیے القدس کو اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم بیت المقدس کو دشمن کے قبضے سے چھڑانا چاہتے ہیں تو ہمیں شہر مقدس کے باشندوں کی سیاسی، مادی ،معنوی اور اخلاقی ہر میدان میں مدد کرنا ہو گی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسماعیل ھنیہ نے ان خیالات کا اظہار ہفتے کے روز سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں القدس انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ایک فورم سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ صہیونی دشمن کے سامنے تمام ممکنہ وسائل کےساتھ جنگ لڑیں گے، القدس اور مسجد اقصیٰ سے دستبرداری کی تمام کوششوں کا مقابلہ کریں گے اور اسرائیل کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے”۔
انہوں نے کہا کہ ہم قوم سے جو وعدہ کرتے ہیں اسے خون دے کر بھی پورا کرتے ہیں۔ حماس کے کارکنوں اور فلسطینی عوام نے ہمیشہ یہ اعلان کیا کہ وہ القدس اور مسجدا قصیٰ کو فراموش نہیں کریں گے۔ وہ اپنے اس وعدے پرآج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ بیت المقدس کے شہری اسرائیل کے خلاف ہمارے محاذ کی فرنٹ لائن پر ہیں۔ ان کی مدد اور نصرت عالم اسلام اورعرب اقوام کی ذمہ داری ہے۔
عرب انقلابات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ عرب ممالک میں آنے والی تبدیلی کی تحریکوں کو”مقدس انقلابات” کا نام دیا جانا چاہیے کیونکہ ان انقلابات کے نتیجے میں عرب ممالک میں بیداری اور آزادی کی لہریں اٹھی ہیں۔ آج عرب اقوام اپنی مرضی کے فیصلے کر رہی ہیں۔ یہ عرب ممالک کے انقلابات ہی کا ثمر ہے کہ اسرائیل اس وقت دنیا میں سخت عالمی تنہائی کا سامنا کر رہا ہے۔ وہ اپنےگرد و پیش سےسخت خوف زدہ ہے کیونکہ وہ اس بیداری کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر پا رہا۔
اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں کہا کہ صہیونی دشمن ہمیں اپنے اسلحے اور طاقت کے مرعوب کرنےکی کوشش نہ کرے۔ فلسطینیوں نے ہمیشہ دشمن کی طاقت کو خاک میں ملایا ہے۔ فلسطینی وزیراعظم نے فلسطینیوں کی خدمت اور مشکل میں مدد پر سوڈانی حکومت اور قوم کو سراہا۔ان کا کہنا تھا کہ سوڈان نے بھی ہمیشہ فلسطینیوں کی طرح دشمن کی ریشہ دوانیوں کا پوری جرات سے مقابلہ کیا۔