انسانی حقوق کی تنظیم ’’مرکز العدالہ‘‘ کی جانب سے’’ غریب اور انتہائی غربت کا شکار لوگ‘‘ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ کی ایک نقل بھی موصول ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں پوری تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کی انتقامی پالیسیاں، نسل پرستانہ اقدامات اور امتیازی سلوک وہ بنیادی محرکات ہیں جن کے نتیجے میں اسرائیل کے زیرقبضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینی باشندے بدترین غربت کا سامنا کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت ایک سوچے سمجھے اور منظم منصوبے کے تحت اپنے زیرتسلط علاقوں کی فلسطینی کمیونٹی کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔
مرکز العدالہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں اسرائیل کے نیشنل انشورینس کی اس رپورٹ پربھی روشنی ڈالی گئی ہےجس میں سنہ 2014 ء کے بعد اسرائیل میں تیزی سے فروغ پذیر غربت کے بارے میں تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ مرکز العدالہ نے اسرائیلی رپورٹ کی تیاری میں کی گئی غلطیوں کی بھی نشاندہی کی ہے اور بتایا ہے کہ فلسطینی عرب شہریوں کی غربت کے جو اسباب صہیونی نیشنل انشورینس کی جانب سے بتائے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ فلسطینیوں کی غربت کی بنیادی وجہ ان کے ساتھ ہونےوالا امتیازی سلوک اور نسل پرستانہ صہیونی پالیسیاں ہیں جو غربت کا شکار فلسطینیوں کو غریب سے غریب تر کررہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے اسرائیلی نیشنل انشورینس کی جاری کردہ رپورٹ کے بعض اعدادو شمار مسترد کردیے ہیں اور کہا ہے کہ صہیونی قومی بیمہ کے ادارے نے سنہ 1948 ء کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی غربت کی جو شرح بیان کی ہے۔ درحقیقت وہ اس سے بھی زیادہ خوف ناک ہے اور صورت حال کہیں زیادہ بد تر ہے۔
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ فلسطینی خاندانوں میں سنہ 2013 ء اور 2014 ء کے درمیان غربت کی شرح میں 51.7 فی صد سے بڑھ کر 52.6 فی صد ہوئی ہے جس میں صرف ایک فی صد کا فرق ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سنہ 2013 ء اور 2014 ء کے درمیان ایک فی صد نہیں بلکہ 5 فی صد فرق پڑا ہے۔ سنہ 2013 ء میں عرب کنبوں میں غربت کی شرح 47.4 فی صد تھی جو سنہ 2014 ء میں بڑھ کر 52.6 فی صد ہوگئی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے صہیونی حکومت کے فلسطینی عرب شہریوں اور یہودی آباد کاروں کے درمیان روا رکھے جانے والے فرق کا بھانڈہ بھی پھوڑ دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہودی آبادکاروں کی غربت دور کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کی طرف سے یہودیوں کے بچوں، بوڑھوں، بیواؤں، یتیموں، معذوروں کے لیے خصوصی الاؤنسز[وظائف] جاری کیے جاتےہیں جس کے نتیجے میں یہودیوں میں غربت کی شرح میں 45.2 فی صد کمی ہوئی ہے جب کہ فلسطینی شہری ان تمام مراعات سے محروم ہیں۔
غربت کے دیگر اسباب میں ایک اہم سبب اسرائیل کے سرکاری بجٹ میں عرب شہروں کے لیے کم سے کم بجٹ بھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے زیرتسلط 73 فی صد فلسطینی قصبے اور شہر اقتصادی اور سماجی اعتبار سے غربت کے بدترین دور سے گذر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے یہودی بستیوں کے لیے 100 فی صد بجٹ مہیا کیا جاتا ہے جب کہ عرب آبادیوں کے لیے صرف 37 فی صد بجٹ مختص ہوتا ہے۔ اس بجٹ کا بھی ایک بڑا حصہ یہودیوں کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر صرف کیا جاتا ہے۔
تعلیمی شعبے میں بھی یہودی طلباء اور فلسطینی طلباء کےدرمیان غربت میں غیرمعمولی فرق ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے یہودی مدارس اور اسکولوں کو 67 فی صد اضافی بجٹ مہیا کیا جاتا ہے۔