فلسطینی سیاسی جماعتوں بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” اور فتح کے درمیان طے پانے والےمفاہمتی معاہدے پر صہیونی میڈیا اور سیاست دانوں سے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے” ٹی وی10″ کے پروگرام”فیس دیپریس” میں گفتگو کرتے ہوئے صہیونی سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ کےنمائندوں نے صلح کرنے پر حماس اور فتح کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرتعلیم”گدعون ساعر” نے کہا کہ "حماس کی شراکت سے وجود میں آنے والی فلسطینی قومی حکومت مستقبل قریب میں اسرائیل کے لیے سنگین ترین خطرہ ہو گی، اور یہ خطرہ اس وقت اور بھی سنگین ہو جائے گا جب عرب ممالک میں جاری عوامی انقلابات کی تحریکوں کے نتیجے میں حماس کی ہم خیال دینی قوتیں ان ملکوں کی زمام کار سنھبالیں گی”۔
ایک سوال کے جواب میں صہیونی وزیرکا کہنا تھا کہ حماس نے تیزی کے ساتھ عوامی مقبولیت کا سفر طے کیا ہےجبکہ اس کے مقابلے میں فتح کی عوامی حمایت کا گراف کم ہوا ہے۔ حماس سنہ 2006ء سے قبل کوئی قابل ذکر سیاسی قوت نہیں تھی تاہم اس کےسال دو ہزار چھ کے پارلیمانی انتخابات کے بعد حماس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔یہی کامیابی اب حماس کو تنظیم آزادی فلسطین”پی ایل او” میں لے آئے گی۔اس کے نتیجے میں جس طرح سنہ 2006ء میں فتح کی باقیات نےغزہ کی پٹی سے فرار اختیار کیا تھا اب مغربی کنارے سے بھی اسے فرار اختیار کرنا پڑے گا۔
پروگرام میں گفتگو کرتےہوئے صہیونی وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبرمین نے صدر محمود عباس کو دھمکی دی کہ انہوں نے حماس کے ساتھ سیاسی شراکت کے اعلان پرعمل درآمد کیا تو اسرائیل فلسطینی انتظامیہ کے تمام تر واجب الادا ٹیکس روک دے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر فلسطینی صدر نے حماس کے ساتھ مفاہمت کر لی توان کی بیرون ملک آزادنہ آمد رفت پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
پروگرام میں حماس کے بارے میں تندو تیز سوالات پوچھے گئےاور شرکاء نے حماس پر تابڑتوڑ حملے کیے۔ فیس دی پریس کے شرکاء کا کہنا ہے کہ آئندہ سال منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حماس پہلے سے زیادہ بڑی سیاسی قوت بن کرسامنے آ سکتی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا۔