شیخ احمد یاسین کی شہادت کو نو برس مکمل ہو گئے، عزم و ہمت کی چٹان اس عظیم فلسطینی رہنما کے جانے کے نو سال بعد آج قوم انہی کی جدوجہد کی ثمرات سمیٹ رہی ہے۔ ان کی بے مثال قربانیوں کے باعث غزہ اسرائیلی شکنجے سے آزادی پا چکا ہے جبکہ مغربی کنارا بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔
شیخ احمد یاسین کا تصور کرنے کے ساتھ ہی چیلنجز کا مقابلہ کرنے، ظلم و ستم کے خلاف سرنہ جھکانے اور قابض فورسز کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کرنے کے تصورات مجسم ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔ یہ وہ تصورات ہیں جن کو شیخ احمد یاسین نے اپنے خون کے ذریعے نئی نسل تک پہنچایا ہے۔
ان کی شہادت کو نو سال مکمل ہونے پر آج مغربی کنارے کے شہریوں کا خیال ہے کہ شیخ احمد یاسین نے صرف اپنے پاک باطن اور پاکیزہ روح کے ذریعے ہی فلسطین کو قربانی پیش نہیں کی بلکہ وہ اسرائیل کی جارحیتوں کے خلاف کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بروقت اور مناسب انداز میں مزاحمت کرنے کے حوالے سے ایک اسکول کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسرائیل کو اس معذور اور چلنے پھرنے سے قاصر شخص کو شہید کرنے کی حماقت پر مجبور ہونا پڑا۔
نجاح یونیورسٹی کی طالبہ نسرین خلیل نے کہا کہ شیخ احمد یاسین صرف فلسطین کے نوجوانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے رہنما اور نمونہ ہیں۔ انہوں نے امت کو سبق دیا کہ ظلم کے خلاف کسی صورت خاموش نہیں رہنا بلکہ اس کو ایک چیلنج سمجھ کر اس کے خلاف آواز بلند کرنا، اور نتائج سے بے پرواہ ہوکر اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے مقاصد کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہونا ہی ان کا دیا گیا سبق ہے۔ انہی کے چنے کے راستے کی برکت سے اسرائیل کو غزہ سے نکلنا پڑا ہے۔
شیخ احمد یاسین کو سن 2004ء میں غزہ شہر کی الصبرا کالونی میں اپنے گھر کی قریبی مسجد مجمع اسلامی سے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد واپس لوٹتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ تین اسرائیلی میزائلوں کی زد میں آکر شیخ احمد یاسین موقع پر ہی شہید ہوگئے اور ان کے ساتھ ساتھی بھی اس حملے میں شہید ہوئے۔ اس جارحانہ کارروائی میں دو افراد زخمی بھی ہوئے۔ میزائل حملے میں شیخ احمد یاسین کی وہیل چئیر کے پرخچے اڑ گئے اور خون میں لتھڑے کرسی کے ٹکرے قریبی گھروں اور مسجد میں جا کر گرے۔ شیخ یاسین کے جسم کے ٹکڑوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
بیر زیت یونیورسٹی کے طالب علم محمود مصری کا کہنا ہے ’’اطمینان بخش بات یہ ہے کہ شیخ یاسین کے بعد ان کے پیروکار بھی ان ہی کے راستے پر چل رہے ہیں، ان کے مخلص ساتھی آج اسرائیل کے قلب تل ابیب کو اپنے ایم 75 راکٹوں سے نشانہ بنانے کے قابل ہو چکے ہیں۔
نجاح یونیورسٹی کی طالبہ ساجدہ الحسن نے چماس کے بانی شیخ یاسین کے بارے میں اظہار خیال کچھ یوں کیا’’مزاحمت کرنے والا کوئی بھی رہنما ان کی مثل نہیں ہو سکتا، چل پھرنے سے قاصر اور معذور تھے، پھر بھی اسرائیل نے انہیں شہید کرکے ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔ اس ستارے جیسا اور ستارہ کہاں ہے؟‘‘
شیخ احمد اسماعیل یاسین 28 جون 1936 کو فلسطین کے علاقے المجدل کے قریبی گاؤں الجورہ میں پیدا ہوئے۔ 1948ء میں فلسطینیوں کے نکبہ یعنی فلسطینی سرزمین پر صہیونی ریاست کے قیام کے موقع پر ان کے خاندان کو غزہ کی جانب ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ اپنی جوانی میں کھیل کے دوران پیش آنے والے حادثے میں ان کے دونوں جانب کے ہاتھ اور پاؤں مفلوج ہوگئے تھے۔
شیخ احمد یاسین نے اپنی اس خطرناک معذوری کو کبھی بھی اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ وہ عربی زبان اور اسلامی تعلیمات کے بہترین استاذ تھے۔ غزہ کی مساجد میں خطیب اور مدرس کے طور پر خدمات سرانجام دیتے تھے اور فلسطینیوں کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی تلقین کرتے تھے۔ اسرائیل کے غزہ پر تسلط کے دوران وہ پورے غزہ کے سب سے معروف و مشہور خطیب تھے۔
صہیونی قید سے رہائی کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کی بنیاد رکھی۔ سن 1991 میں اسرائیل کی ایک عدالت نے انہیں اسرائیلی فوجیوں کو قتل اور اغوا کرنے اور حماس جیسی مزاحمت تحریک قائم کرنے کے جرم میں عمر قید اور اضافی پندرہ سال قید کی سزا سنائی۔ سن 1997ء میں وہ اردن اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت رہا کردیے گئے تھے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین