فلسطین کے سیاسی امور کے ماہر اور معروف تجزیہ کار ابراھیم المدھون نے انکشاف کیا ہے کہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی نے گزشتہ پانچ سالوں میں اپنے زیر نگیں علاقوں سے متعدد بار اسرائیلی فوجیوں اور غاصب یہودی آباد کاروں کو حراست میں لیا اور بغیر کسی قیمت کے اسرائیل کے حوالے کر دیا۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ کار نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے ساتھ اپنی ایک خصوصی گفتگو میں بتایا کہ رام اللہ اتھارٹی کے برعکس فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے جیسے ہی اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو گرفتار کیا اس کو اپنے اسیران کی رہائی کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور پانچ سال تک زیر حراست رکھ کر اس کے بدلے 1027 فلسطینی اسیران کی رہائی ممکن بنائی، فتحاوی اتھارٹی بیس سالہ مذاکرات کے باوجود اتنی بڑی تعداد کو صہیونی عقوبت خانوں سے رہا کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
ابراھیم مدھون نے بتایا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران فلسطینی اتھارٹی نے مغربی کنارے کے شہروں اور خیمہ بستیوں سے 184 اسرائیلی فوجی اور یہودی آباد کاروں کو حراست میں لیا اور معاوضہ لیے بغیر اسرائیلی حکام کے حوالے کر دیا۔ حالانکہ پکڑے جانے والے اسرائیلی اہلکاروں اور آبادکاروں میں سے متعدد افراد فلسطینی شہریوں کے خلاف جارحیت کی کوشش کر رہے تھے۔
ایسے یہودی آباد کار بھی اتھارٹی کے ہتھے چڑھے جو مسلمانوں کی مساجد، فلسطینیوں کے گھروں کو نذر آتش کرنے اور مقدس مقامات کی بے حرمتی میں ملوث تھے تاہم رام اللہ کی فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر ان سب کو صہیونی حکام کے حوالے کر دیا۔
ابراھیم مدھون نے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے اختیار کی گئی اسٹریٹجی کی تعریف کی اور بتایا کہ حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے محض ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے 1027 فلسطینی اسیران کو رہا کروانا ایک بڑی کامیابی تھا اس کے برعکس فلسطینی اتھارٹی بیس سالوں کے دوران اتنی بڑی تعداد میں اپنے اسیران کو رہا نہ کروا سکی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’وفاء اسیران‘‘ معاہدہ ایک قومی معاہدہ تھا جس میں مصر میں برپا ہونے والے انقلاب کا بھی بڑا کردار تھا، مصر میں بننے والی نئی حکومت کی ثالثی ہی کی بدولت فلسطینی مزاحمت کار اپنے کل قیدیوں کا بیس فیصد رہا کروانے میں کامیاب ہو گئے۔