اسرائیل کے داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے’’شاباک‘‘ کے سابق چیف نے خبردار کیا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں چند ماہ قبل دوابشہ نامی ایک فلسطینی خاندان کو گھر میں زندہ جلانے میں ملوث انتہا پسند یہودیوں کو سزا نہ ہوئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق ’’شاباک‘‘ کے سابق چیف جنرل عامی ایلون نے اسرائیل کے عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی 1 کودیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ فلسطینیوں کے مجرمانہ قتل میں ملوث یہودیوں کو بھی کڑی سزا ہونی چاہیے۔ رواں سال مئی میں مغربی کنارے کے نابلس شہر میں دوابشہ خاندان کے افراد کو زندہ جلانے اور ایک سال قبل بیت المقدس میں اغواء کے بعد قتل کیے گئے فلسطینی لڑکے محمد ابو خضیر کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں صہیونی انٹیلی جنس کے سابق چیف کا کہنا تھاکہ سب جانتے ہیں کہ ایک سال پیشتر محمد ابو خضیر نامی ایک فلسطینی لڑکے کے اغواء میں کون کون ملوث تھا۔ اس کے علاوہ رواں سال دوابشہ خاندان کے تمام افراد کو ان کے گھر میں آگ لگا کر زندہ جلانے میں ملوث یہودی گروپوں ’’تاگ محیر‘‘ اور ’’دفع الثمن‘‘ سے وابستہ شدت پسندوں کو کڑی سزائیں ہونی چاہئیں جب تک یہودیوں کو قانون کے مطابق سخت سزا نہیں ہوگی اس وقت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا اسرائیل پراعتماد قائم نہیں ہوسکتا۔
ایک سوال کے جواب میں عامی ایلون کا کہنا تھا کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے اور حکومتیں بار بار ایک ہی غلطیاں دہراتی رہی ہیں۔ اب غلطیوں کے تکرار اور ان پر اصرار کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ جب ’’دفع الثمن‘‘ نامی گروپ خود یہ تسلیم کرتا ہے کہ علی سعد دوابشہ اور دیگر افراد کو انہوں نے زندہ جلایا ہے تو اس واقعے میں ملوث افراد کو بچانے اور قانون کی پکڑ سے روکنے کا آخر کیا جواز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت نے ماضی میں بھی اس گروپ سے وابستہ یہودیوں کو سزائیں دینے کے بعد معاف کردیا تھا۔
خیال رہے کہ ’’دفع الثمن‘‘ نامی ایک یہودی انتہا پسند گروپ نے رواں سال مئی میں نابلس شہر میں ایک فلسطینی خاندان کو زندہ جلا دیا تھا جس کے نتیجے میں ایک ڈیڑھ سالہ شیرخوار، اس کی والدہ اور والد شہید جب کہ چار سالہ بچہ بری طرح جھلس گیا تھا۔ اسرائیلی پولیس نے دفع الثمن نامی گروپ سے وابستہ شرپسندوں کو حراست میں لیا تھا مگر اسرائیلی حکومت انہیں قانون کی گرفت سے بچانے کی کوششیں کررہی ہے۔