فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی پارٹی”الفتح” کے منحرف لیڈر محمد دحلان کے درمیان تازہ کشیدگی اور الزام تراشی سے دونوں شخصیات کی عوامی حمایت پر بھی منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
دحلان ۔ عباس کشمکش میں جہاں فتح کی قیادت میں پھوٹ پڑ رہی ہے وہیں عوامی سطح پر ہونے والی سرگرمیوں میں بھی صدر محمود عباس کی حمایت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق صدر محمود عباس اور مفرور لیڈر محمد دحلان ایک ایسے وقت میں ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں جب فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات بھی کر رہی ہے۔ عوامی سطح پر صدر محمود عباس کے حق میں ہونے والی ریلیوں میں عوام کی شرکت میں کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ انہی میں ایک بڑی وجہ صدر عباس اور دحلان کے درمیان سیاسی رسا کشی اور باہمی الزام تراشی ہے۔ اس کےعلاوہ فلسطینی اتھارٹی کے سرابرہ محمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ جاری امن مذاکرات پر بھی عوامی حلقوں میں سخت غم وغصے کی فضاء پائی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حال ہی میں مقبوضہ مغربی کنارے کے مختلف اضلاع میں صدر محمود عباس سے اظہار یکجہتی کے لیے جلسے جلوس اور ریلیاں بھی نکالی گئیں، لیکن ان میں شرکاء کی تعداد معمول سے بہت کم دیکھی گئی۔
مبصرین اور مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کی عوامی پذیرائی میں کمی کی ایک بڑی وجہ صدرعباس کا دورہ امریکا اور اپنے امریکی ہم منصب باراک اوباما سے ملاقات کی بھی ہے۔ کیونکہ عوام کی اکثریت امریکا کی نگرانی میں جاری امن مذاکرات کی حمایت نہیں کرتی بلکہ اسے قوم کے ساتھ بددیانتی تصور کرتی ہے۔ صدر عباس اور دحلان کے درمیان جاری سیاسی کشیدگی بھی صدر عباس کی عوامی مقبولیت میں کمی کا ایک بڑا محرک سمجھی جا رہی ہے۔
عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر محمود عباس ایک ایسے وقت میں دحلان کے ساتھ الجھ رہے ہیں جب امریکا کی نگرانی میں جاری امن مذاکرات اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ صدر عباس کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ اسرائیل سے مذاکرات میں کچھ بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں، اس لیے عوامی توجہ اصل مسئلے کی طرف سے ہٹانے کے لیےانہوں نے دحلان کی کرپشن اور اہم سیاسی قائدین کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کی ہے۔
مغربی کنارے کے مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ رام اللہ حکومت صدر محمود عباس کے حق میں ہونے والے جلسوں کی حاضری اسکولوں،جامعات اور سرکاری محکموں کے ملازمین کے ذریعے پوری کی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین، اسکولوں کے طلباء اور اساتذہ کو جبرا جلسوں اور ریلیوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ میڈیا میں صدر محمود عباس کی جعلی حمایت دکھائی جا سکے۔
دحلان کے پتلے نذرآتش
فلسطین کے مختلف شہروں میں جاری عوامی مظاہروں میں صدر محمود عباس کے حامی اور مخالفین اپنے اپنے طور پر سیاسی قوت اور ایک دوسرے کے خلاف غم وغصے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ گذشتہ روز رام اللہ میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں منحرف لیڈر محمد دحلان کا پتلا نذرآتش کیا گیا اور اس کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ جبکہ نابلس میں فلسطینی صدر محمود عباس کے مخالفین اور دحلان کے حامیوں نے صدرعباس کی تصاویر پرمبنی پوسٹر نذراتش کیے۔
دحلان کےخلاف ہونےوالی ریلی میں”خائن خائن” کے نعرے لگائے جا رہے تھے جبکہ صدر عباس کی مخالفین انہیں سابق فلسطینی لیڈر یاسرعرفات کا قاتل ٹھہرا رہے تھے۔
رام اللہ میں جامعہ الازھر کے ذیلی ادارے میں دحلان نواز اور صدر عباس کے حامی طلباء کے مابین تصادم بھی ہوا اور دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کی خوب درگت بنائی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین