(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) 1987 میں فلسطینیوں کا صبر جواب دے گیا اور اسرائیل کے خلاف پہلی بغاوت جسے انتفادہ کیا جاتا ہے، شروع کی جو 1993 تک جاری رہی۔
اس بھرپور بغاوت کے نتیجے میں 200 اسرائیلی اور ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے، اسی دوران غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے حماس کے نام سے ایک مسلح گروپ قائم ہوا جس نے اسرائیل پر حملوں میں شدت کردی، بگڑتی صورتحال کے پیش نظر امریکہ کے زیر سایہ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات اور اسرائیلی پرائم منسٹر اسحاق رابین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسے اوسلو اکارڈ کہا گیا اس معاہدے کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی دفعہ فلسطینی حکومت کو تسلیم کیا گیا۔
ویسٹ بینک کا 18 فیصد علاقہ مکمل طور پر فلسطین سول انتظامیہ کو دے دیا گیا، 22 فیصد علاقے پر فلسطینی حکومت اور اسرائیلی سکیورٹی قائم کی گئی جبکہ 60 فیصد علاقہ مکمل طور پر اسرائیل کے زیر اثر دے دیا گیا۔ دونوں جانب سے اس معاہدے کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حماس نے اس معاہدے کے خلاف خود کش حملے کیے اور معاہدہ کرنے والا اسرائیلی وزیراعظم کچھ ہی عرصے بعد اپنے ہی ملک میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
چند برس مزید بات چیت کی کوشش کے بعد بھی جب حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی تو 2000 میں فلسطینیوں کی جانب سے ایک بار پھر بغاوت شروع کی گئی جو پانچ سال جاری رہی، ایک ہزار کے قریب اسرائیلی اور ساڑھے تین ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے دوسرے احتجاج کے اختتام پر اسرائیل کے رویے واضح تبدیلی دکھائی دی، اب فلسطینیوں کے ساتھ کوئی بھی معاملہ حل کرنے کی بجائے ان کو قابو میں رکھنے کے لئے دیواریں کھڑی کی گئیں، چیک پوائنٹس بنائے اور پکڑ دھکڑ میں تیزی کر دی۔
2005 میں ہی اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے تمام اسرائیلی شہریوں کو واپس لے لیا اور اس علاقے کے گرد گھیرا سخت کردیا۔ غزہ میں حماس کی پکڑ بہت مضبوط ہوگئی اور اس نے ایک قلیل مدتی لڑائی کے بعد خود کو ویسٹ بینک میں موجود فلسطینی سرکار سے الگ کر لیا۔
آج فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی بہت مشکل ہے اور مستقبل قریب میں بھی بہتر زندگی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اسرائیلی حکومت رفتہ رفتہ فلسطین کے لوگوں سے ان کی باقی ماندہ زمین اور امید بھی چھین رہی ہے۔ غزہ پٹی میں رہنے والوں پر زندگی خاص طور پر تنگ کر دی گئی ہے۔ وہاں موجود حماس کی تنظیم گاہے بگاہے اسرائیل پر حملہ کرتی رہتی ہے جس کے جواب میں سینکڑوں بے گناہ فلسطینی مارے جاتے ہیں۔
اب اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکا کی پشت پناہی سے اعلان کیا ہے کہ رواں سال ویسٹ بینک کا تیسرا حصہ 28 جولائی کو مکمل طور پر اسرائیل میں شامل کر لیا جائے گا۔ آنے والے سال فلسطین میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مزید مشکلات لے کر آتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، اگر کوئی بھی فلسطینی تابناک مستقبل کی خواہش رکھتا ہے تو ایسے امکانات کو کھوجنے کے لیے اسے اپنے آباء و اجداد کی سر زمین چھوڑ کر کہیں اور جانا ہوگا۔
دور حاضر میں کہ جب ایک طرف دنیا کو کورونا وائرس جیسی خطر ناک وباء کا سامنا ہے تو ایسے حالات میں عالمی سامراج بشمول امریکہ اور اس کے حواری، غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل اور جنوبی ایشیاء میں ہندو شدت پسند مودی حکومت کورونا وائرس کی وباء کو نہ صرف فلسطین، کشمیر بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جاری تشدد اور ظلم کی پالیسیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور اسرائیل فلسطین سمیت خطے کی عرب ریاستوں کا امن و امان برباد کئے ہوئے ہے ۔
اسی طرح بھارت کشمیر میں معصوم اور نہتے کشمیری عوام کو کچلنے میں مصروف ہے ۔ امریکہ براہ راست یمن، عراق، افغانستان، لیبیا اور لبنان سمیت دیگر مقامات پر انارکی پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے جبکہ لاطینی امریکائی ممالک کے خلاف بھی امریکی ظالمانہ پالیسیوں پر صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ونیزویلا، کیوبا اور بولیویا جیسی ریاستیں امریکی ظالمانہ پالیسیوں کا شکار ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے اس مہلک وائرس کو وجہ بناتے ہوئے اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک بہترین موقع کے طور پر استعمال کیا ہے لہٰذاہمیں مظلوم انسانیت کے بنیادی مسائل کو فراموش نا کرتے ہوئے ان سازشوں کو بے نقاب کرنا چاہئے ۔ ان مظالم کو بے نقاب کرنے کیلئے ہمیں مسئلہ فلسطین کو انسانی ہمدردی پر اجاگر کرنا چاہئے اسی طرح ہمیں مسئلہ کشمیر کو بھی اجاگر کرنا چاہئے ۔ امریکا میں نسل پرست سفیدفام ، فلسطین میں نسل پرست یہودی(صہیونی) اور بھارت میں ہندوتوا کے شدت پسند نظریات کے حامی ہندو پوری دنیا کے امن کیلئے ایک مستقل خطرہ ہیں ۔ جن کو ہم کسی صور ت نظر انداز نہیں کرسکتے اور اس سلسلے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حقوق کی پاسداری کے لئے آواز بلند کی جائے ۔ تا کہ دنیا کو باور کروایا جائے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور کشمیر کشمیریوں کا ہے ۔
فلسطین پر صہیونیوں کا تسلط ناجائز ہے اور اسی طرح کشمیر میں ہندوستانی حکومت کا تسلط بھی ناجائز ہے ۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے القدس پر صہیونی ریاست کے قبضے کو ناجائز تسلیم کیا ہے لیکن امریکہ صہیونی ریاست کی خوشنودی کے حصول کیلئے بین القوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے اور یہی صورتحال کشمیر کی بھی ہے بین الاقوامی قوانین کے تحت عالمی برادری نے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے لیکن بھارت نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کرلیالہذا موجودہ فلسطینی اور کشمیری صورتحال ہم سب کیلئے باعث تشویش ہے اور بھارت اور اسرائیل کے غیر قانونی دعوؤں کو عرب اور مسلم دنیا نے یکسر مسترد کردیا ہے ۔
مقبوضہ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ صرف مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام سے جڑاہوا نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں انصاف اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت انسانی حقوق کے مسائل اور حق خود ارادیت سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بابائے قوم کا موقف بالکل واضح تھا، قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے ایک مشترکہ محاذ بنانا چاہئیے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہئیے تاکہ اس کے حل کیلئے کوششیں تیز کی جاسکیں۔
یہ پیغام ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا مظلوم فلسطینیوں اور اور کشمیریوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ پاکستان کے قیام سے قبل 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے دو قراردادوں کو متفقہ طور پر منظو رکیا تھا جس میں سے ایک تو پاکستان کے قیام کیلئے تھی جبکہ دوسری فلسطینوں کی حق خوداردیت کیلئے تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا فلسطینیوں کے ساتھ کتنا گہرا رشتہ ہے ۔اس سے قبل بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938 میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کیلئے پہلی مرتبہ یوم یکجہتی فلسطین اور فلسطین فنڈ کا آغاز کیا تھا، یہ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کی فلسطین کے ساتھ طویل اور دیرینہ وابستگی ہے ۔ جب ہم کشمیر اور فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں دو چیزیں دونوں میں مشترک ہیں ، کشمیر میں بھارتی وزیر اعظم مودی کا ہندوتوا کے نام پر نظریاتی ایجنڈا ہے جس کو وہ کشمیریوں پر لاگو کرکے مظالم ڈھارہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو صہیونیت کے نظریاتی ایجنڈے پر نہتے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں ، اور یہ دونوں ہی اقوام متحدہ کی قرارد ادوں کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہے ہیں ۔
مسلم امہ کو رنگ نسل اور عقائد سے بالا دست ہوکر کشمیر، فلسطین، لبنان، شام،عراق، اور یمن سمیت تمام مظلوم مسلم ممالک کے حق کیلئے متحد ہونا ہوگا اور یہی ایک واحد راستہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو قائم رکھ سکتے ہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کی حکومتیں اور حکمران سامنے آئیں فلسطین وکشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات انجام دیں اور یہ عملی اقدامات یقینا مسلم دنیا کے آپس کے اتحاد سے ہی ممکن ہوسکتے ہیں ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر