برطانیہ میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں قائم یہودی کارخانوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بڑھتے رحجان نے اسرائیل اور برطانیہ میں موجود یہودی لابی کو سخت صدمے سے دوچار کیا ہے۔
یہودیوں کو تازہ صدمہ اس وقت لاحق ہوا ہے جب ایک برطانوی تنظیم نے ایک یہودی دانشور پروفیسر موتی کریسٹل کوخطاب کے لیے دعوت دی لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے پروفیسر کریسٹل کو مد عو کیے جانے پراحتجاج کیا۔ اس احتجاج کے بعد مسٹر کریسٹل کا نام ورکشاپ کے مقررین کی فہرست سے نکال دیا گیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق لندن کے شمال مغربی شہر مانچسٹر میں نیشنل ہیلتھ سروسز کے زیراہتمام ایک "کانفرنس” پیش آئند ہفتے ہو رہی ہے جس میں مختلف ماہرین کو مدعو کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یہودیوں کے نمائندہ پروفیسر کریسٹل کی مدعو کرنے کے بعد انہیں مقررین کی فہرست سے نکالنے پریہودیوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پروفیسر کریسٹل کو "دور حاضرکے تنازعات اور ان کا مذاکرات کے ذریعے حل” تقریر کے لیے عنوان بھی جاری کردیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں ایک یہودی دانشور کے لیکچر کے بائیکاٹ کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حال ہی میں برطانیہ کی کئی دوسری تنظیموں نے بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یہودی پروفیسر کے بائیکاٹ کی بنیادی وجہ ایک بڑی سماجی اور پیشہ ور تنظیم”یونسٹن” کا دباؤ ہے۔ کیونکہ ورکشاپ کے اعلان اور اس کے مقررین کی فہرست کے سامنے آنے کے بعد پروفیسر کریسٹل کو مدعو کیے جانے پرسب سے زیادہ احتجاج اسی تنظیم نے کیا تھا۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں اس تنظیم کے کارکنان کی تعداد 13 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ تنظیم فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں قائم یہودی کارخانوں کی تیار کردہ مصنوعات کے بائیکاٹ میں برطانیہ میں صف اول کی تنظیم شمار کی جاتی ہے۔
دوسری جانب لندن میں تعینات اسرائیلی سفیر ڈینیل ٹوپ نے بھی پروفیسر کریسٹل کے لیکچر کے بائیکاٹ کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پروفیسر کریسٹل کا بائیکاٹ برطانیہ میں یہودی تنظیموں اور اداروں کو خاص طور سےانتقام کا نشانہ بنانا ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین

