القدس ترقیاتی فاؤنڈیشن نے اسرائیلی بلدیہ کی جانب سے القدس کے رہائشیوں کے گھروں کو منہدم کرکے انہیں ہجرت پر مجبور کرنے کی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اس بابرکت شہر کے باسیوں کو زندگی کے اہم ترین رہائش کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔
اپنے اخباری بیان میں القدس فاؤنڈیشن برائے ترقی کا کہنا ہے کہ مسجد اقصی کے اطراف پھیلے مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین شہر کی فضاء اب خود اسی شہر کے باسیوں کے لیے سازگار نہیں رہی۔ یہاں کے رہنے والے شہریوں کے گھروں کو منہدم کیا جارہا ہے جس کے بعد یہ سب اپنے ہی شہر میں ایک ٹاؤن سے دوسرے ٹاؤن ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انہدامی کارروائیوں کے ذریعے اسرائیل اہالیان القدس کو شہر چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے تاکہ اس شہر میں آبادی کا تناسب یہودیوں کے حق میں ہوجائے اور وہ بین الاقوامی برادری کے سامنے اس شہر کو یہودی شہر قرار دے سکے۔
القدس فاؤنڈیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی دائیں بازو کی پارٹیوں اور حکومتی رہنماؤں کے بیانات میں القدس کے شہریوں کی املاک پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ متعدد معروف صہیونی شخصیات نے القدس کو یہودیوں کا ابدی دارالخلافہ قرار دلوانے کے لیے القدس کے فلسطینیوں کی جائیدادوں پر قبضے کی ترغیب دی ہے۔ ان رہنماؤں کے خیال میں مشرقی القدس کو اسرائیلی دارالخلافہ بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے اس شہر میں فلسطینیوں کی تعداد تین فیصد سے بڑھنی نہیں چاہیے۔
فاؤنڈیشن نے بتایا کہ 1967ء میں اس شہر میں اسرائیل کے داخلے کے بعد سے لیکر اب تک یہاں پر فلسطینیوں کے 1322 سے زیادہ گھر منہدم کیے جا چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے القدس میں کس تیزی سے جغرافیائی اور آبادیاتی تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے۔ فاؤنڈیشن نے بتایا کہ اب بھی بیس ہزار سے زائد گھروں کو گرانے کے احکامات پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین