رکن اسمبلی منیٰ منصور نے ان خیالات کا اظہار مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل کو بھی کچھ شرائط کا پابند بنایا گیا تھا مگر صہیونی ریاست نے معاہدے کی تمام شرائط کو دیوار پر دے مارا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے اوسلو معاہدہ قبول کرکے اپنے پائوں میں خود ہی زنجیریں ڈال دیں۔ یہ مذموم معاہدہ سیکیورٹی کے حوالے سے پہلا اور آخری ثابت ہوا ہے۔ اوسلو معاہدے پر دستخط کے بعد اب تک فلسطینی قوم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اس معاہدے نے فلسطینی قوم کے سماجی دھارے کو تار تار کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر آنے والے دن فلسطینی قوم میں انتشار بڑھتا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ معاہدہ ہے جس نے پوری قوم کو گروپوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل نے معاہدے کی پاسداری نہیں اور اس کی تمام شرائط کو دیوار پر دے مارا ہے۔ لہٰذا فلسطینی اتھارٹی اسے فوری طورپر منسوخ کرنے کا اعلان کرے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نام نہاد اوسلو امن معاہدے کو گلے لگائے ہوئے ہے حالانکہ دوسری جانب دیکھا جائے تو یہ معاہدہ فلسطینی قوم کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ اس معاہدے کی آڑ میں صہیونی ریاست فلسطینی قوم پر مظالم ڈھارہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں منٰی منصور کا کہنا تھا کہ فلسطین میں سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں سنہ 2007 ء کے بعد سے شروع نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان کی تاریخ سنہ 1993 ء سے شروع ہوتی ہے جب فلسطین میں اوسلو نامی ایک معاہدے کے ذریعے فلسطینی قوم کو تقسیم کیا گیا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین