فلسطینی ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے متوقع طور پر اتوار کے روز فلسطینی شہریوں کے خلاف صہیونی پارلیمان میں پیش کیے جانے والے بل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بل منظوری کی صورت میں مغربی کنارے میں فلسطینی اراضی ہتھیا کر غیر قانونی طور پر بنائی گئی یہودی بستیاں جائز قرار پائیں گی۔
ڈاکٹر بحر نے ہفتے کے روز جاری اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی اراکین پارلیمان کی جانب سے کنیسٹ (صہیونی پارلیمان) میں جس مسودہ قانون کو مقننہ کے سامنے رکھا جائے گا اس کی منظوری فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم کی فہرست میں ایک اور شرمناک اضافہ اور فلسطینیوں کے مقدس مقامات اور املاک کے خلاف اسرائیلی جنگ کا ایک رسوا کن باب تصور ہو گا۔
ڈاکٹر بحر نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی حکومت جس کے پیچھے فلسطینی معاشرہ کھڑا ہے کی جانب سے فلسطینی قوم کے حقوق کی پامالی اور بے گناہ شہریوں پر مظالم کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے، صہیونی معاشرہ دن بدن دائیں بازو کے خیالات کا حامل بنتا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل فلسطینی شہریوں کو نسلی تعصب کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، مختلف طریقوں سے فلسطینیوں پر مشکلات کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی اراضی اور املاک پر قبضہ کرنے کے لیے قانون سازی کے طریقے بھی اپنائے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بنجمن نیتن یاھو کی حکومت فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کی تمام حدود پار کرتی جا رہی ہے جس کو لگام دینا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فلسطینی مفاہمت پر عملدرآمد میں تیزی لانا ہوگی تاکہ متحد ہوکر فلسطینی قوم کے تمام بنیادی مسائل کے حل کے ٹھوس اور فوری اقدامات اٹھائے جا سکیں۔
اس موقع پر ڈاکٹر بحر نے عرب لیگ، اسلامی تعاون کونسل، اقوام متحدہ اور عرب اور اسلامی دنیا کی پارلیمان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی امتیازی قوانین کے خلاف ٹھوس اور عملی موقف اپنائیں۔