اسرائیل نے فلسطینی باشندوں سے مقبوضہ بیت المقدس میں حق سکونت سلب کرنے کے لیے ان کے قومی شناختی کارڈز کی جگہ اسمارٹ کارڈ کے نام سے ایک نئی "سازش” تیار کی۔
دوسری جانب فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی رہ نماؤں نے اسے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی نئےسازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس اسکیم کے تحت لاکھوں فلسطینیوں کو بیت المقدس سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق صہیونی وزارت داخلہ نے قومی شناختی کارڈ کی جگہ اسمارٹ کارڈ کی اسکیم کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کے شناختی کارڈ گم ہو گئے تھےجس کے بعد انہوں نے نئے اسمارٹ کارڈ متعارف کرانے کا منصوبہ تیار کیا۔ صہیونی حکومت کا کہنا ہے کہ گم شدہ شناختی کارڈ”مجرمانہ عناصر اور دہشت گردوں” کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جس کے لیے اب تمام فلسطینی باشندوں کو اسمارٹ کارڈ بنوانے ہوں گے۔
دوسری جانب فلسطیبنی عوام بخوبی یہ جانتے ہیں کہ اسرائیل کی اس مجرمانہ سازش کا مقصد فلسطینی باشندوں کو حق سکونت سے محروم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ اقدام فلسطینیوں کو جبری ھجرت پرمجبور کرنے کی ایک کھلی سازش ہے۔
اہالیان القدس کا ناطقہ بند کرنےکی کوشش
مقبوضہ بیت المقدس میں برائےسماجی و اقتصادی امور کے ڈائریکٹر زیادہ الحموری نے "اسمارٹ کارڈ” کی اسکیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کارڈ کے ذریعے اسرائیلی حکومت تمام فلسطینیوں کی معلومات کو ایک مقناطیسی آلے کےاندر محفوظ کرے گا۔ اس میں کارڈ ہولڈر کا مکمل ایڈریس، اس کے رشتہ داروں کی تفصیلات،فنگرپرنٹس اور جسم کی علامات درج کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس آلےکے ذریعے ان تمام فلسطینیوں کی ہر قسم کی نقل وحرکت نوٹ کی جائے گی۔ فلسطینیوں کی نقل وحرکت پر نہ صرف بیت المقدس کے اندر نگرانی رکھی جائے گی بلکہ بیرون شہربھی ان کی سرگرمیوں پرنظر رکھی جا سکے گی۔
الحموری نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی حکومت کی اس نئی اسکیم کے نتیجے میں بیت المقدس اور اس کے مضافاتی علاقون سے ایک لاکھ 20 ہزار فلسطینیوں کی نقل مکان اور جبری ھجرت کا خدشہ ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے بیت المقدس کے شہریوں کے لیے اسمارٹ کارڈ کی اس اسکیم کا قانونی سطح پر مقابلہ بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ ماضی میں بھی اس طرح کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا توعدالتوں نے مظلوم فلسطینیوں کےبجائے اسرائیلی حکومت کا ساتھ دیا۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگارکاکہنا تھا کہ اسمارٹ کارڈ کا تجربہ فی الحال محدود اورمخصوص لوگوں کے لیے ہو گا تاہم دو سال کے بعد یہ اسکیم کامیاب رہی توتمام فلسطینیوں کے قومی شناختی کارڈ ختم کر کے ان کی جگہ اسمارٹ کارڈ جاری کر دیے جائیں گے۔
اسمارٹ کارڈ کی سازش کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک دوسرے فلسطینی تجزیہ نگار الشیخ ناجح بکیرات نے کہاکہ اسرائیل مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطینیوں کا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہے۔ بھاری ٹیکسوں کے بوجھ سے بیت المقدس کے فلسطینی مکینوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔رہائش، تعلیم، صحت جیسے شعبوں پر ٹیکس نافذ کرنے کے بعد اب ٹی وی ٹیکس کے نام سےایک نیا بوجھ ڈال دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اب اسمارٹ کارڈ کے نام سے نیا فراڈ فلسطینیوں سے پیسے بٹورنے اور انہیں مزید مشکلات میں ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین