اسرائیلی اور یورپی شخصیات نے فلسطینی اسیران کی رہائی کی مہم کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی اور فلسطینی رہنماؤں اور جماعتوں کو اسرائیلی جیلوں میں کئی روز سے بھوک ہڑتال پر گئے اسیران کے معاملے کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔
یہ بیان فلسطینی یوم اسیران کی مناسبت سے منعقد کیے گئےسیمینار میں یورپی نیٹ ورک برائے آزادی فلسطینی اسیران کی جانب سے دیا گیا، اس سیمینار میں قیدیوں کی نگہانی کی یوسف صدیق تنظیم اور اسیران کی اہل خانہ کمیٹی نے بھی شرکت کی۔
القدس میں سرگرم انسانی حقوق کے کارکن عبد اللہ صیام کا کہنا تھا کہ اس نازک مرحلے پر جب اسیران کی بڑی تعداد نے جیلوں میں بھوک ہڑتال کر رکھی ہے تمام فلسطینی حلقوں کو ان کا ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ یہ انصاف نہیں کہ انتہائی معمولی باتوں پر قیدیوں کو تکلیفیں دی جائیں، اسرائیلی دوران ملاقات باپ کو بیٹے سے گلے ملنے نہیں دیتے، بالخصوص غزہ کے قیدیوں کو اپنے بچوں سے ملاقات سے محروم کیا جا رہا ہے۔
سیمینار میں شریک اسیران کے حقوق کے دفاعی یورپی نیٹ ورک نے کہا کہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر بچوں کو قید کیا جاتا ہے۔ حمدان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اسیران کو ان عقوبت خانوں میں ہی بچوں کے پیدا ہونے کی خوشخبری ملتی ہے، اسی طرح ان اسیران کے بچوں کی باہر شادیاں ہو رہی ہیں، ان کے والدین فوت ہو رہے ہیں لیکن یہ سب اسیران جیلوں میں ہی قید ہیں۔
اس موقع پر سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطین میں سرگرم تحریک اسلامی کے سربراہ شیخ رائد صلاح نے بتایا کہ گرفتار شدگان میں سے کئی فلسطینی اسیران نیلسن منڈیلا کی مانند ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس کے اواخر میں حماس اور اسرائیل کے مابین تبادلہ اسیران معاہدے کی رو سے ایک ہزار سے زائد اسیران کی رہائی پہلا مرحلہ تھا، جس کے بعد اب ایسے دوسرے معاہدے بھی کیے جائیں گے۔
سابق برطانوی رکن پارلیمان مارٹن لینٹون نے کہا کہ اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں کہ اسرائیل مشرق وسطی میں جمہوری عمل کو سبوتاژ کر رہا ہے۔اس وقت صہیونی عقوبت خانوں میں فلسطین کے ستائیس اراکین پارلیمان زیر حراست ہیں جس کی ساری دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے دنیا بھر کے انسانی حقوق کے علمبرداروں سے ہزاروں بے گناہ فلسطینی اسیران کی رہائی کے لیے میدان عمل میں آنے کی اپیل بھی کی۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین

