
آیا اسرائیل عالمی انسانی اصولوں اورعالمی قوانین کی کس حد تک پابندی کر رہا ہے۔ آیا صہیونی ریاست عالمی اصولوں کوتسلیم بھی کرتی ہے یا نہیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق اسماعیل ھنیہ نے ان خیالات کا اظہار برطانوی خبررساں ایجنسی”رائیٹزز” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھوک ہڑتال کرنے والے اسیران میں سے کوئی اسیر شہید ہو گیا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیںگے۔ میں اس بات سے خوف زدہ نہیں ہوں کہ اسرائیل کی جیلوں میں بھوک ہڑتالیوں کو خطرات لاحق ہیں، کیونکہ ہمیں اسرائیل سے خیر کی توقع نہیں کیونکہ وہ دانستہ طور پر اسیران کی زندگیوں کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہے۔ میں عالمی برادری سےمطالبہ کروں گا کہ قابض صہیونی جیلوں میں بھوک ہڑتالی اسیران کے مطالبات پورے کرانےکے لیےاسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے اور فلسطینی شہریوں کے ساتھ سیاسی قیدیوں نہیں بلکہ جنگی قیدیوں کی طرح معاملہ کیا جائے”۔
ایک سوال کےجواب میں فلسطینی وزیراعظم نے اسیران کے مطالبات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسیران کےمطالبات جائز اور سیدھے سادے ہیں جو آسانی سے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ اسیران کی قید تنہائی ختم کی جائے۔ انتظامی حراست میں رکھے گئے اسیران کو رہا کیا جائے، قیدیوں کو ان کے اہل خانہ سے ملنےکی اجازت دی جائے اور قانون شالیت کے تحت اسیران کو ان کے اہل خانہ سے ملنے سے محروم نہ رکھا جائے”۔مصر اور ایران سے تعلقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ما بعدانقلاب انہیں مصر سے بہت سے توقعات وابستہ ہیں۔ تاہم فی الحال وہ مصر سے کوئی بڑا فائدہ حاصل نہیں کر پائے ہیں،البتہ انہیں توقع ہے کہ مستقبل قریب میں فلسطینی عوام کو بھی مصری انقلاب کے اثرات کے فوائد اٹھانے کا موقع ملے گا۔
اس سوال پر کہ آیا اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ چھڑی تو حماس کا کیا کردار ہوگا۔ اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ ایران ایک طاقتور ملک ہے اسے حماس جیسی تنظیم کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی تہران حکومت نے ان سے اس سلسلے میں کوئی بات کی ہے۔فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا حماس کی حکومت مفاہمت کی خواہاں ہے تاہم فی الحال مفاہمت کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مفاہمت مردہ تو نہیں ہوئے تاہم یہ فی الحال بے حس وحرکت ہے۔انہوں نے کہا کہ مفاہمت کے سلسلے میں صدر محمود عباس کو امریکا اور بیرونی دباؤ کاسامنا ہے، جس کے باعث وہ حماس کے قریب آنے سے گریزاں ہیں۔ کیونکہ امریکا اور اسرائیل خود کو فتح کے قریب خیال کرتے ہیں اور وہ حماس کو کسی صورت بھی قومی حکومت میں شامل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین
