فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں حکمراں جماعت "اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے کہا ہے کہ جمعرات کے روز قاہرہ میں فلسطینی سیاسی جماعتوں کےدرمیان طے پانے والی مفاہمت کوعملی شکل دینے کے لیے تین بنیادی اور اساسی عوامل پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں عام انتخابات کی تیاری کے لیے ایک دوسرے کےخلاف بیان بازی کی پالیسی ترک کرنا ہو گی اور انتخابات کے لیے فضاء سازگار بنانا ہو گی۔
غزہ میں مسجد الکبیر میں جمعہ کے خطبے میں اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی سیاسی جماعتوں کےمابین مفاہمت ایک نعمت بھی ہے اور ایک حقیقی آزمائش بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ہم سب مل کر اس مفاہمت کے تقاضے پورے کر سکیں گے یا نہیں۔ مفاہمت کا عمل آگےبڑھانے کے لیے سب سے بڑی ضمانت ملک میں ایک دوسرے کے حوالے سے فضاء کو سازگار بنانا ہے۔
مفاہمت پرعمل درآمد کے تقاضوں پر بات کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ قومی اتحاد کے اعلان کے بعد اس کی بقاء کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ امریکی اور صہیونی دھمکیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے۔ مفاہمت پر اسرائیل نے سنگین نتائج کی دھمکیاں اور امریکا نے فلسطینیوں کی امداد روکنے کی دھمکیاں دی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ امریکی کسی صورت میں یہ نہیں چاہتے کہ فلسطینیوں کو کوئی بھلائی پہنچے۔ وہ صہیونیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے فلسطینیوں کو آپس میں دست و گریباں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت فلسطینی جماعتوں کی جانب سے آزادانہ فیصلے کرنے اوربیرونی دباؤ سے نکلنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ اس وقت فلسطینی عوام کو مفاہمت پرعمل درآمد کے لیے اس کے ایجنڈے سے پسپائی کے بجائے اس پراستقامت اختیارکرنے کی ضرورت ہے۔ ہم مفاہمت کے عمل میں نہ فیلڈ میں پسپا ہونا چاہتے ہیںاور نہ ہی سیاسی طور پراس کےکسی متفقہ اصول سے دستبردار ہوں گے۔ امریکا اور اسرائیل ہمیں امداد کی بندش کا خوف نہ دلائیں۔ امریکا اور اسرائیل نے امداد نہ دی توبھی فلسطینی بھوکے نہیں مریں گے۔
فلسطینی وزیراعظم کے بہ قول”ان کی حکومت نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی سےیہ سیکھا ہے کہ فلسطینی عوام صابرو شاکر اور پرعزم قوم ہے۔ معاشی ناکہ بندی سےفلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا تاہم فلسطینیوں نے اسرائیل کے ایماء پرحماس کےخلاف انقلاب برپا کرنے کی سازشوں کوناکام بنا دیا۔