پاکستان کے سابق فوجی آمر اور صدر جنرل(ریٹائرڈ) پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لئے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ بہ قول صدر مشرف اسرائیل، پاکستان کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔اس کا وجود ایک حقیقت ہے، ہمیں اسے تسلیم کرنا ہو گا۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان بھارت کے قریب ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرناچاہئیں،کافی مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستانی یہودیوں کے خلاف نہیں، فلسطین کے تنازعے پر پاکستانی عوام اسرائیل کے خلاف ہیں۔ پاکستان آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات میری ہدایت پر کی تھی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسرائیل کے کثیرالاشاعت روزنامے "ہارٹز” کو خصوصی انٹرویو میں کیا۔ کسی بھی پاکستانی رہنما کا کسی اسرائیلی اخبار کو یہ پہلا انٹرویو ہے۔ اپنے تفصیلی انٹرویو میں پرویزمشرف نے مختلف علاقائی اور بین الاقوامی امور پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ یہ انٹرویو ان سے لندن میں اخبار کی نمائندہ ڈانا ہرمان نے لیا۔
حماس اور حزب اللہ سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس)، القاعدہ اور حزب اللہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ مسئلہ فلسطین حل نہ ہونا اس کے معرض وجود میں آنےکی وجہ ہے۔ انہوں نے لبنان میں صابرہ اور شاتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں میں فلسطینیوں کے قتل عام کے ذمہ دار صہیونی فوجی جنرل ارئیل شیرون کو "شاندارخراج” پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ درحقیقت احترام کے لائق ہیں۔
فلسطینی انتظامیہ کے سابق صدر مرحوم یاسر عرفات سے متعلق سوال پر سابق صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ ابو عمار نے مسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر زیادہ کچھ نہیں کیا کیونکہ شاید وہ اپنی جان کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہتےتھے۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر بات کرتے ہوئے پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ تہران کو کسی ملک سے خطرہ نہیں، اس لئے ایران کے نیوکلئر پروگرام کا کوئی جواز نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اگرچہ غیر لکچدار رویے کے مالک ہیں تاہم وہ کسی کے خلاف ایٹمی اسلحہ کبھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور ایک مبینہ امریکی آپریشن میں ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اسمیں غفلت کا عنصر رول آؤٹ نہیں کیا جا سکتا تاہم ان کی پاکستان میں مبینہ موجودگی کسی جوڑ توڑ کا نتیجہ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا ایک دن وہ اسرائیل کا دورہ بھی کر سکتے ہیں، تاہم فی الحال وہ ملک واپسی کی تیاری میں ہیں کیونکہ پاکستان کو ان کی شدید ضرورت ہے۔