فلسطین میں انسانی حقوق کے ایک ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ صہیونی ریاست دانستہ طور پر فلسطینی ماحول کو زہرآلود کر کے فلسطینی باشندوں کا جینا محال بنا رہی ہے۔ اسرائیلی کارخانوں اور یہودی کالونیوں سے نکالا جانے
والا گندا پانی فلسطینی آبادی میں کھلے عام پھینکا جاتا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف انسانی زندگی بلکہ حیوانی اور نباتاتی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ فضائی آلودگی کے نتیجے میں فلسطینیوں میں کینسر جیسے جان لیوا امراض عام ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر صہیونی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں پر مسلط ماحولیاتی جارحیت کی روک تھام نہ کی گئی تو فلسطینی آبادی میں انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق "عرب آرگنائزیشن برائے انسانی حقوق” کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے پہلے تو فلسطینی شہریوں سے ان کی ملکیتی وسیع رقبے پر پھیلی اراضی یہودی کالونیوں، فوجی کیمپوں اور فیکٹریوں کے لئے ہتھیا رکھی ہے اور جو باقی بچ گئی ہے اسے زہرالود پانی، یہودی کالونیوں اور فیکٹریوں کے فضلے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ جس کے باعث فلسطینیوں کا زندہ رہنا مزید محال ہوچکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہودی کالونیوں سے کئی ملین مکعب میٹر آلودہ پانی نکالے جانے کے بعد اسے فلسطینی آبادیوں کے آس پاس پھینک دیا جاتا ہے، جو زمین میں سرائت کر کے نہ صرف زیر زمین میٹھے پانی کو آلودہ کرتا ہے بلکہ زراعت اور نباتات کو بھی براہ راست تباہ کررہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فلسطین میں فضائی اور ماحول کا سب سے بڑا سبب اسرائیلی کالونیاں اور یہودیوں کی فیکٹریاں ہیں۔ مقبوضہ فلسطین کے ساحلی علاقوں میں قائم اسرائیلی کارخانوں سے نکلنے والا دھنواں، فضلہ اور زہریلہ پانی فلسطینیوں کی روز مرہ زندگی کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہے۔ مغربی کنارے کی ساتھ ستھری ہوا اب زہریلی دھوئیں سے بری طرح آلود ہوچکی ہے جبکہ زیرزمین پانی میں بھی یہودی فیکٹریوں کی آلودگی سرایت کرچکی ہے۔
اسرائیلی وزارت ماحولیات کی جانب سے پہلی مرتبہ یہودی کارخانوں کے مضر اثرات کے بارے ہوشربا اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ صہیونی وزارت ماحولیات کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارا، مقبوضہ حیفا، اسدود اور الخضیرہ جیسے بڑے فلسطینی شہر کارخانوں اور فیکٹریوں کی بھرمار کے باعث بدترین ماحولیات ی آلودگی کا سامنا کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1948 ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں قائم کارخانوں سے نکلے والا زہریلا پانی اور فضلہ فلسطینی شہریوں میں کینسر کا باعث رہا ہے۔ جامعہ النجاح سے وابستہ کیمسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر راقی شبیطہ کا کہنا ہے کہ حیفا شہر میں کئی الیکٹرک پاور اسٹیشن قائم ہیں۔ اس کے علاوہ فاسفیٹ کیمیکل فیکٹریاں اور تیل صاف کرنے والے کاخانوں سے نکلنے والا دھواں علاقے کی فضاء کو تباہ کن حد تک آلودہ کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کارخانوں کے قریب رہنے والے فلسطینیوں کی زندگیوں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2012 ء کے دوران جب مصر کی جانب سے گیس کی فراہمی روک دی گئی تو صہیونی کارخانوں میں گیس کی تیاری اور دوسرے کارخانوں میں کام تیز کردیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں کینسر جیسے موذی امراض پھیلانے والا مواد تیزی سے سرایت کرنے لگا۔ اسرائیل کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑا تو اس کے نتیجے میں فلسطینی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔