اسرائیل میں انتہا پسند یہودی مسجد اقصی کے صحن میں واقع قبہ الصخرہ [پہاڑی کے گنبد] کو شہید کر کے وہاں اپنا مزعومہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا خواب ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں
لیکن انہیں اپنے خواب کو حقیقت دینے میں مسلمانوں کے ردعمل کا خدشتہ ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ انتہا پسند اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دوبارہ کنیسٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد موجود قیادت کے قبلہ اول کے خلاف جارحانہ اقدامات میں شدت آتی جا رہی ہے۔
تل ابیب سے شائع ہونے والے عبرانی اخبار ‘یدیعوت احرونوت’ کے مطابق صہیونی کارپردازوں کے انہی منصوبوں کو ایک فلمی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کی تیارکردہ اس فلم میں قبہ الصخرہ کی شہید کر کے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کو مترشح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اخبار کے مطابق اسرائیلی نائب وزیر خارجہ ڈانی ایلون، فلم کے ایک نمایاں کردار کے طور پر قبہ الصخرہ کی شہادت کے پس منظر سے نمایاں ہوتے دکھایا گیا ہے۔ پوری سکرین پر انتہا پسند صہیونی رہنما یہودیت اور حرم قدسی شریف کے درمیان تعلق پر بات کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق فلم کے ذریعے صہیونی مملکت کی دنیا کے سامنے ساکھ کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم اسے فلسطینیوں اور عالم اسلام کے ردعمل کے خوف سے نشر نہیں کیا گیا۔
ادھر القدس میں سپریم اسلامی کونسل کے رہنما الشیخ عکرمہ صبری نے فلم کے مندرجات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلم قابض صہیونی حکام کے مسجد اقصی کے خلاف دشمنانہ اقدامات کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک بیان میں عکرمہ صبری نے کہا کہ فلم کی تیاری سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ مسجد اقصی کی شہادت کا پلان صرف انتہا پسند یہودی تنظیموں تک محدود نہیں بلکہ اس میں اسرائیل کی موجودہ سیاسی قیادت بھی نمایاں طور پر شریک ہے۔
فلم کے اندر کی جانے والی کمنٹری میں مقبوضہ بیت المقدس میں دینی آزادی پر حاشیہ آرائی کی گئی ہے۔ دستاویزی پیشکش میں ایسے مناظر فلم بند کئے گئے ہیں جن سے اسلام سے پہلے یہودیوں کی موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں اسلامی سپریم کونسل کے سربراہ نے مزید کہا کہ حالیہ انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی کے قبلہ اول پر بہت زیادہ منفی اثرات پڑیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ سیکٹروں یا ہزاروں یہودی پولیس اور اسرائیلی فوج کے حفاظتی حصار میں مسجد اقصی پر حملہ آور ہو سکتے ہیں تاکہ وہ فلسطینیوں اور دنیا کے سامنے زمینی حقائق کی بنا پر معاملہ کر سکیں۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین