اسرائیلی پارلیمنٹ”کنیسٹ”میں ایک نئے مسودہ قانون پر بحث جاری ہے۔ زیربحث مسودہ قانون میں مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کی جنگ میں قبضے لیے گئے علاقوں کی تمام مساجد میں اذان پر پابندی کا نفاذ عمل میں لانا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی شہریوں نے اسرائیل کے اس ظالمانہ، نسل پرستانہ اور اسلام دشمن اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی کنیسٹ میں زیربحث مسودہ قانون ایک شدت پسند اسرائیلی سیاسی جماعت "لیکوڈ” کے رکن کی جانب سے جمع کرایا گیا ہے۔ مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کی مساجد میں لگے لاؤڈ اسپیکر یہودی آباد کاروں کے آرام وسکون میں خلل پڑ رہا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ تمام مساجد میں اذان یا ان میں لگے بیرونی لاؤڈ اسپیکروں کے استعمال پر پابندی لگائی جائے تاکہ یہودی آباد کاروں کے آرام و سکون کو یقینی بنایا جاسکے۔
دوسری جانب مفتی اعظم فلسطین الشیخ محمد حسین نے مساجد میں اذانوں پر پابندی کو اسلام اور مسلمانوں کےخلاف منظم سازش قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک جانب مقبوضہ بیت المقدس کی تمام مساجد کو مسمارکر کے فلسطین اوراسلام دشمنی کا ثبوت فراہم کر رہا ہے اور دوسری جانب مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی تمام مساجد کی اذانوں پر پابندی عائد کرنا ہے”۔
شیخ محمد حسین کا کہنا ہے کہ مساجد پر حملے ہوں یا اذانوں پرپابندی کے نفاذ کے لیے قانون سازی جیسی شرانگیزی ہو صہیونی حکومت نے تمام آسمانی مذاہب کی تعلیمات کو دیوار پردے مارا ہے۔ مساجد میں اذانوں پر پابندی کا قانون عالمی قوانین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کا مقصد فلسطین میں یہودی بستیوں کی توسیع کرتے ہوئے فلسطینیوں کے لیے فضاء تنگ کرنا ہے۔
شیخ محمد حسین نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ قابض صہیونی حکومت کو مقدس مقامات پر دست درازی سے باز رکھنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈلوائے۔