اسرائیلی کابینہ نے یہودیوں کی صہیونی نسل پرستی کےخلاف سرگرم انسانی حقوق کی تنظیموں اور بائیں بازو کی مختلف این جی اوز کے فنڈز منجمد کرنے کے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری پر غور شروع کیا ہے۔
اس قانون کی رو سے کسی بھی ایسی این جی او یا انسانی حقوق کی تنظیم پر پابندی عائد کی جا سکتی ہےجو صہیونی نسل پرستی اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آوازبلند کرے گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کےمطابق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ بعض این جی او انسانی حقوق کی آڑ میں اسرائیل کی بدنامی کا موجب بن رہی ہیں۔ وہ ایک ایسے مسودہ قانون کی منظوری پرغور کر رہے ہیں جس کے تحت ایسی کسی بھی تنظیم پر پابندی عائد کی جائے گی جو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کوششیں کرتے ہوئے اسرائیل کو ہدف تنقید بنائے گی۔
درایں اثناء اسرائیلی اخبار”ہارٹز” نے اپنی منگل کی اشاعت میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی حکومت پر امریکا اور یورپ کی جانب سے بھی اس حوالے سے سخت تنقید کی جارہی ہے کہ وہ تل ابیب انسانی حقوق کی تنظیموں پر قدغنیں لگا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے انسانی حقوق کی تنظیموں پر پابندی اور ان کے فنڈز منجمد کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطین میں یہودیوں کی کئی ایسی این جی اوز کام کر رہی ہیں جو آئرلینڈ، برطانیہ اور یورپی یونین کے دیگرممالک کے براہ راست فنڈز سے کام کرتی ہیں۔ اسرائیلی کابینہ کے ہاں زیرغورقانون کی منظوری کے بعد کوئی بھی این جی او بیرون ملک سے بیس ہزار ڈالرز سے زیادہ کی رقم سالانہ حاصل نہیں کر سکے گی۔