فلسطینی مزاحمتی تنظیم اور ملک کی منظم مذہبی سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” نے فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل سے مذاکرات فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد اور مفاہمتی مساعی کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان ڈاکٹر سامی زھری نے اپنےایک بیان میں کہا ہےاسرائیل اس وقت فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم اور ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو کر سخت ترین عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ فلسطین میں غیرقانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کے تسلسل کے باعث اسے اقوام متحدہ میں بھی سخت سبگی اور تنہائی کا سامنا ہے جب عرب ممالک میں جاری انقلابات کی تحریکوں نے صہیونی ریاست کو خطے میں تمام دوستوں سےمحروم کر دیا ہے۔ اسرائیل اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے اور صدرمحمود عباس مذاکرات کے ذریعے صہیونی دشمن کی تنہائی ختم کرنے میں اس کی مدد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ قابض ریاست کو ہو گا، کیونکہ اسے دنیا کے سامنے اپنی ساکھ بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس کا الٹا نقصان فلسطینیوں کو یہ ہو گا کہ ان کے درمیان مفاہمت کے لیے کی جانے والی مساعی خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔
ڈاکٹر ابوھری نے کہا کہ حماس فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان نام نہاد امن مذاکرات کی بحالی کی مذمت کرتے ہوئےاسے ناکام سیاست کا اعادہ سمجھتی ہے۔
حماس رہ نمانے واضح کیا کہ اسرائیلی میڈیا میں تنظیم کو بدنام کرنے کے لیے یہ شوشا چھوڑا جا رہا ہے کہ تنظیم نے مسلح جدو جہد کا راستہ ترک کر دیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حماس مسلح جدوجہد کو کسی قیمت پر ترک نہیں کرے گی۔