(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض اسرائیل اور فلسطینی مزاحمت کے درمیان ہونے والے حالیہ تبادلے میں رہا ہونے والے متعدد اسیران نے انکشاف کیا ہے کہ فلسطینی رہنما اور اسیر بزرگ شیخ محمد جمال النتشہ کی حالت انتہائی نازک ہو چکی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وہ یادداشت کھو بیٹھے ہیں اور ان کی مجموعی صحت خطرناک طور پر بگڑ چکی ہے جس کے لیے فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔رہا ہونے والے اسیران نے بتایا کہ شیخ النتشہ جن کی عمر ستر برس سے تجاوز کر چکی ہے، کئی امراض میں مبتلا ہیں۔ وہ یادداشت کی کمی اور فکری کمزوری کے شکار ہیں جبکہ قابض اسرائیل کی جیل انتظامیہ دانستہ طور پر ان کا علاج معالجہ روک رہی ہے۔ انتظامیہ نہ تو انہیں کسی اسپتال منتقل کر رہی ہے اور نہ ہی ضروری طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
اسیران کے مطابق شیخ النتشہ کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بگڑ رہی ہے۔ انہوں نے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر مداخلت کریں تاکہ شیخ النتشہ کی زندگی بچائی جا سکے اور انہیں فوری طبی نگہداشت فراہم کی جائے۔
شیخ محمد جمال النتشہ شہر الخلیل میں اسلامی مزاحمتی تحریک کے سرکردہ رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں 1980 کی دہائی سے اب تک قابض اسرائیل نے درجنوں مرتبہ گرفتار کیا ہے اور وہ مجموعی طور پر تقریبا بیس سال تک صہیونی جیلوں میں قید رہ چکے ہیں جن میں زیادہ تر عرصہ انہیں بغیر کسی الزام کے انتظامی حراست میں رکھا گیا۔کلب برائے اسیران کے مطابق قابض اسرائیل شیخ النتشہ کو دانستہ طور پر موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسیران کے دفتر اطلاعات نے اعلان کیا ہے کہ شیخ محمد جمال النتشہ المعروف ابو ہمام کی زندگی کو درپیش خطرات کی مکمل ذمہ داری قابض اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔ یہ اقدام صہیونی جیلوں میں اسیران کے خلاف ہونے والے منظم جرائم کی ایک نئی قسط ہے۔
دفتر اطلاعات برائے اسیران نے گذشتہ اپریل کے وسط میں جاری بیان میں کہا تھا کہ شیخ محمد النتشہ جو فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن بھی رہ چکے ہیں، تحریک اسیران کے نمایاں رہنمائوں میں سے ہیں۔ وہ قابض اسرائیل کی جیلوں میں 23 سال سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں جن میں زیادہ تر عرصہ انتظامی حراست میں رکھا گیا۔ تاہم ان کی موجودہ گرفتاری سب سے زیادہ سنگین اور اذیت ناک ہے کیونکہ اس دوران انہیں وحشیانہ تشدد اور قتل کی واضح کوشش کا سامنا رہا۔شیخ النتشہ اپنے خطبات، دعوتی سرگرمیوں اور قومی یکجہتی کے فروغ میں کردار کے باعث فلسطینی عوام میں ایک باعزت اور موثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ الخلیل کی سماجی و دعوتی تنظیموں میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں اور ہمیشہ اسیران کے حقوق اور آزادی کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔