اردن کی میزبانی میں فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات کا دوسرا دور کل پیر کے روزعمان میں ہوا۔ مذاکرات میں فلسطینی ریاست کی جغرافیائی حدود اور سیکیورٹی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مذاکرات میں فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ مذاکرات کارصائب عریقات، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے خصوصی ایلچی اسحاق مولخو اوراردنی وزیرخارجہ ناصرجودہ شریک تھے۔
اردنی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد الکائید نے میڈیا کو بتایا کہ پیر کے روز فلسطینی اتھارٹی اوراسرائیلی نمائندون کے مابین ہونے والے راست مذاکرات میں بات چیت کا عمل آگے بڑھانے اور اسے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ انہون نے کہا کہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے۔ پیرکے روز کی میٹنگ میں فلسطینی ریاست کی جغرافیائی حدود کے تعین کا نقشہ راہ تیارکرنے اور دونوں ریاستوں کے سیکیورٹی سے متعلق امور زیربحث آئے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ فریقین میں فی الحال ہونے والی تمام ملاقاتیں ابتدائی نوعیت کی ہیں، جن میں فوری طور پر کسی بڑے "بریک تھرو” کا امکان نہیں ہے تاہم یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ فریقین مذاکرات کا عمل آگے بڑھانے پر متفق ہیں۔
ادھر فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت فتح کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن واصل ابو یوسف کا کہنا ہے کہ عمان مذاکرات کے دوران اسرائیلی مندوب اسحاق مولخو نے فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات کو ایک 22 نکاتی مطالبات کی فہرست ہے جس میں اسرائیل کی سیکیورٹی سے متعلق شرائط کا ذکر ہے۔ اس فارمولے میں بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارے سے ملحقہ علاقہ وادی اردن اسرائیل کے قبضے میں رہے گا۔ تمام بیرونی راہداریوں کا کنٹرول بھی اسرائیل کے پاس ہو گا نیز فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بنیادی شرط یہ ہوگی کہ وہ ہر قسم کےمہلک اسلحہ سے پاک ریاست ہو گی۔
ابو یوسف کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطین کے تمام تزویراتی اہمیت کے حامل مقامات پر اپنا کنٹرول برقراررکھنا چاہتا ہے اور مشرقی بیت المقدس سے دستبرداری پر بھی تیارنہیں۔ اسرائیلی مذاکرات کار بات چیت کے دوران مشرقی بیت المقدس کو اسرائیل کا ابدی دارالحکومت قرار دینے پر اصرار کرتے رہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے مشیر نمرحماد کا کہنا ہے کہ عمان مذاکرات صرف ایک "ٹیسٹ” تھا۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آیا فلسطینی ریاست کے بارے میں اسرائیل کا کیا موقف ہے۔ آیا وہ فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق ہماری شرائط پر تیار ہے یا نہیں۔