اسرائیلی فوج اور جیل انتطامیہ کی جانب سے اپنے حقوق کے لیے بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی اسیران پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب صہیونی فوج کے تشدد کے باوجود اسیران بھوک ہڑتال پر قائم ہیں۔
فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے ڈائریکٹر فواد الخفش نے بتایاہے کہ قابض انتظامیہ نے فلسطینی اسیران کے ساتھ اظہار یکجہتی کےطور پر بھوک ہڑتالکرنے والے اردنی اسیر حمزہ عثمان الدبابسہ پر وحشیانہ تشدد کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے حمزہ کے کپڑوں سمیت اس کی تمام ضروری اشیاء اس سے چھین لی ہیں اور "مجد” جیل سے اب” شطہ” قیدخانے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فواد نے بتایا کہ اس نے صہیونی جیلوں میں بھوک ہڑتالی اسیران اور ان کے بعض وکلاء سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اسیران کا کہنا ہےکہ بھوک ہڑتال شروع کیے جانے کے بعد صہیونی فوج اور انتظامیہ کا رویہ نہایت سفاکانہ ہو چکا ہے۔ اسیران سے بنیادی ضروری کی اشیاء اور ان کے کپڑے تک ان سے سلب کر لیے گئے ہیں۔ اسیران کے ساتھ نہایت ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے۔
فواد الخفش نے بتایا کہ اردنی اسیر حمزہ عثمان نے صہیونی فوج کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنےاور بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے تمام دباؤ کو مسترد کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے وکیل سے بات کرتے ہوئے حمزہ نے کہا کہ اردن اور فلسطین کے شہریوں میں کوئی فرق نہیں۔دونوں ایک ہی قوم کے فرزند ہیں۔ اگر فلسطینی اسیر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اوراس سلسلے میں انہوں نے بھوک ہڑتال کا سہارا لیا ہے تو اس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہوہ اپنے بھوک ہڑتالی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ہمدردی کے لیے اسی طرح بھوک ہڑتال شروع کردے۔ چنانچہ اس نے اسی نقطہ نظر سے بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔ اسرائیلی جیل کی انتظامیہ کی جانب سے ظالمانہ ہتھکنڈے اسے بھوک ہڑتال سے محروم نہیں کر سکتے۔
خیال رہے کہ حمزہ عثمان کو صہیونی فوج نے گذشتہ برس جولائی میں فلسطینی علاقے مغربی کنارے میں اپنے ایک عزیز سے ملنےآمد کے موقع پر حراست میں لیا گیا تھا۔ حراست میں لینے کے بعد اسے بیت تکفا کی فوجی عدالت میں پیش کیا گیا اور اس پر فلسطینی مزاحمت کاروں کےساتھ تعلقات کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اسیر اور اس کے اہل خانہ نے صہیونی فوجیوں کے تمام الزامات مسترد کر دیے ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین

