فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کی قائم حکومت کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے کہا ہےکہ چند قیدیوں کی صہیونی عقوبت خانوں سے رہائی سے فلسطینی قوم کی خوشی مکمل نہیں ہوگی بلکہ یہ خوشی اور جشن اور وقت مکمل ہو گا جب اسرائیلی جیلوں سے آخری فلسطینی بھی رہا ہوکر اپنے گھر پہنچے گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نےان خیالات کا اظہار غزہ میں خطبہ جمعہ اور عازمین حج کی الوداعی تقریب سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ "ہماری خوشی اس وقت مکمل ہو گی جب فلسطین کی ایک ایک اینچ زمین سے صہیونی دشمن کا تسلط ختم ہو گا۔ مسجد اقصیٰ آزاد ہو گی اور اسرائیلی جیلوں میں موجود آخری قیدی کو رہائ یملے گی”۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ منگل کے روز فلسطینی عوام ایک ہزار ستائیس فلسطینی اسیران کی رہائی کی خوشی میں اس دن کو قومی دن کے موقع کے طور پر منائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی اور رہائی پانے والے خوش نصیب قوم کے ہیرو ہیں۔ ہم اپنے ان ہیروز کا تاریخی اور شاندار استقبال کریں گے۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ یہ فلسطینی عوام کی خوش قسمتی ہے کہ اسرائیل حماس اور مجاہدین کی شرائط تسلیم کی ہیں۔ یہ ڈیل اس اعتبار سے بھی باعزت اور باوقار ہے کہ ایسے قیدیوں کو بھی رہا گیا جا رہا ہے جنہیں کئی مرتبہ عمرقید کی سزائیں سنائی گئیں تھیں۔ ان میں احلام تمیمی کا نام سر فہرست ہے جنہیں قابض صہیونی فوج نے 16 مرتبہ عمرقید کی سزا سنا رکھی تھی۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور مزاحمت کاروں کے درمیان طےپانے والی ڈیلنگ میں فلسطین کےتمام علاقوں کے اسیران اور تمام جماعتوں کے وابستگان کو شامل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس، وادی گولان اور مقبوضہ فلسطین کے دیگرشہروں میں جشن منایا جا رہا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ طے پائے اسیران کے تبادلے کی ڈیلنگ میں 320 ایسے اسیران کو شامل کیا گیا ہے جنہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ فلسطینی قوم اپنے ہیروز کے استقبال کے لیے بڑھ چڑھ کر تیاری کریں اور صہیونی عقوبت خانوں میں ان کی جانب سےصبرو استقامت کا مظاہرہ کرنے پر انہیں خراج تحسین پیش کریں۔
انہوں نے کہا کہ سات ہزار قیدیوں میں سے ایک ہزار اسیران کی رہائی سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، مسلم امہ کو اسرائیلی جیلوں میں زیرحراست تمام فلسطینیوں کی رہائی کو یقینی بناتے ہوئےفلسطین کی آزادی، بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے پنجہ سے چھڑانے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔