فلسطینی ریاست کی منزل کھوٹی کرنے کے لیے اسرائیل کے تمام ریاستی ادارے اور یہودی طبقات اپنے اپنے طور پرسرگرمہیں اور فلسطینی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنے کے لئے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔
انتہا پسند یہودیوں کے ذریعے ایسے عوامی سروے پیش کئے جاتے ہیں جن میں فلسطینی ریاست کو ناکام بنانے کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہوتا ہے۔اسرائیل میں ہونے والے عوامی سروے کے نتائج کے مطابق یہودیوں کی اکثریت مقبوضہ غرب اردن کو فلسطینی ریاست میں شامل کرنے کے بجائے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دینے کی حامی ہے۔ عبرانی اخبار’’معاریف‘‘ کی ویب سایٹ پر ایک ہفتے تک جاری رہنے والے عوامی سروے میں 66 فیصد شرکاء نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اسرائیل کے پہلو میں اس کے برابر فلسطینی ریاست کے تصورکی حمایت نہیں کریں گے۔ صرف گیارہ فی صد نے فلسطینی ریاست کی حمایت کا اظہار کیا۔ اکاون فی صد یہودیوں نے مغربی کنارے کے سیکٹر ای ون میں یہودی کالونیوں کو برقرار رکھنے اور اس علاقے کو اسرائیل کا حصہ بنانے کی حمایت کی، جبکہ صرف نو فی صد نے معالیہ ادومیم اور اس سے ملحقہ دیگر یہودی کالونیوں کو ختم کرنے کے حق میں رائے دی۔اسی سروے کے ایک دوسرے حصے میں آئندہ ماہ جنوری میں صہیونی پارلیمنٹ کے ہونے والے انتخابات کے متوقع نتائج کے بارے میں بھی شہریوں سے رائے معلوم کی گئی۔ سروے جائزے کے مطابق رائے دہندگان کی اکثریت کا کہنا تھا کہ پارلیمانی انتخابات کے لیے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی جماعت لیکوڈ اور وزیرخارجہ کی آویگڈورلائبرمین کی جماعت ’’اسرائیل بیتونا‘‘ پر مشتمل اتحاد 120 کے ایوان میں 37 نشستیں لے سکتا ہے۔ لیبر پارٹی 20، البیت الیہودی 12، شاس 11 جبکہ کدیما پارٹی28 نشستیں لے سکتی ہے۔ عوام کی اکثریت اس بات پرمتفق ہے کہ پیش آئند پارلیمانی انتخابات میں کوئی ایک پارٹی بھی حکومت کی تشکیل کے لیے مطلوبہ نشستیں نہیں جیت سکے گی بلکہ موجودہ حکومت کی طرح آئندہ سیشن میں بھی مخلوط حکومت ہی کا امکان دیکھا جا رہا ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین