الشیخ ڈاکٹر صبری نے مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے یہودی ربی ’’نسیم موویل’’ کے اس فتوے کو نسل پرستانہ سوچ کا مظہر قرار دیا جس میں فلسطینیوں کے ملکیتی درخت اکھاڑنے اور دیگر املاک کو نقصان پہنچانے کو جائز قرار دیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صبری کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں انتہا پسند مذہبی پیشواوں کی جانب سے اس نوعیت کے فتاویٰ کا صدور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اللہ کے یہ باغی اسی طرح کے فتاویٰ صادر کرکے فلسطین میں فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی اخلاقی قدر موجود ہے۔ اسی نوعیت کا ایک فتویٰ اس سے قبل جاری کیا گیا جس میں فلسطینیوں کی گاڑیاں چوری کرنے کو جائز قرار دیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں قبلہ اول کے امام کا کہنا تھا کہ قرآن کریم نے یہودیوں کی اسی دشمنانہ روش کو باربار بے نقاب کیا ہے۔ تاریخی طور پر یہ قوم دشمنی اور دوسرے انسانوں سے بد عہدی میں مشہور ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسل پرست صہیونی مذہبی پنڈت اللہ کی طرف منسوب کرکے جو فتاویٰ صادر کرتے ہیں وہ اللہ کے ساتھ بھی جھوٹ باندھتے ہیں۔ اللہ انسانوں پر ظلم کرنے سے روکتا ہے اور یہ اس کے لیے بھی جواز ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں الشیخ صبری نے کہا کہ یہودی مذہب میں بنیادی طور پر دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی تعلیمات موجود نہیں لیکن یہودیوں کا جو طبقہ تلمودی تعلیمات پر عمل پیرا ہے وہ نسل پرستی کی طرف مائل ہونے کے ساتھ ساتھ آسمانی مذاہب کی تعلیمات کو مرضی کے مطابق ڈھالنے اور بنی نوع انسان کو تکلیف پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
خیال رہے کہ اسی نوعیت کا ایک فتویٰ اس سے قبل اسرائیل کے ریلیجیس ملٹری انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور یہودی ربی ’’شلومو ریٹسکین‘‘ کی جانب سے ادارے کے طلباء کے لیے جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کے زیتون کے باغات کے پھل توڑنا اور ان کے پانی کے کنوئوں میں زہر ملانا جائز ہے۔ اس فتوے کے سامنے آنے کے بعد شمالی فلسطین اور گرین لاین کے اندر کے فلسطینیوں کی املاک پر غیرمعمولی حملے شروع ہوگئے تھے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین