فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے مالیاتی بحران سے نکلنےکے لیے جامع معاشی منصوبہ بندی کے بجائے شہریوں پر ٹیکسوں کا نیا بوجھ ڈال دیا ہے۔
محمود عباس نے فتح کے غیرآئینی وزیراعظم سلام فیاض کی سفارش پر ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت فلسطینیوں کو05 سے 15 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق فتح کی حکومت نے یہ ٹیکس اپنے طور پر صدر سے منظور کرا لیا ہے اور اس ضمن میں آئینی تقاضوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ دستوری طور پر ایسے کسی بھی مسودہ قانون کی منظوری سے قبل اسے آئین ساز ادارے مجلس قانون ساز میں اسے بحث کے لیے پیش کیا جانا چاہیے تھا، لیکن صدر محمود عباس نے مجلس قانون ساز کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے طور پر مسودہ قانون منظور کر لیا۔
نئے متنازعہ مسودہ قانون کے تحت جس شہری کی آمد3300 شیکل یا اس سے کم ہو گی، اسے سالانہ پانچ فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور جس کی آمد 3300شیکل سے زیادہ ہو گی اسے سالانہ 15 فی صد ٹیکس فلسطینی اتھارٹی کو دینا ہو گا۔ ٹیکس میں تمام ملازم پیشہ، تاجر صنعت کاروں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق قانون کے نفاذ کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم عوام دشمن اس قانون کے نفاذ کی صورت میں سخت عوامی رد عمل کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطینی انتظامیہ ٹیکسوں کے نئے قانون کے نفاذ سے قبل عوام کا موڈ بھی دیکھے گی اور ممکن ہے قانون میں عوامی دباؤ کے نتیجے میں کچھ ترامیم بھی کی جائیں۔