مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق "نصرت مسائل امہ” کے چیئرمین عبدالصمد فتحی نے کہا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں یہودی توسیع پسندی اور فلسطینیوں کے جبرا بے دخلی کے رحجان میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی جانب سے فلسطین میں اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات پرچشم پوشی اختیار کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے سنہ 1977ء میں فلسطینی قوم سےیکجہتی کا اعلان کیا مگر اس کے باوجود تقسیم فلسطین کی قراردادوں کے نتیجے میں تقسیم کا جو غیرمنصفانہ فیصلہ کیا گیا تھا اس کے تحت یہودی مسلسل توسیع پسندی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی میں 29 نومبر1947ء کو تقسیم فلسطین کی ظالمانہ قرارداد منظور کی گئی تھی اس میں جہاں ارض فلسطین پر یہودی ریاست ‘‘اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا وہیں ساتھ ہی آزاد اور خود مختار فلسطینی مملکت کا بھی اعلان کیا گیا۔ یہودیوں اورصہیونیوں کو جو اس ملک کے باشندے ہی نہیں انہیں ملک بنانے کی اجازت دی گئی مگر فلسطینی آج تک ان کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
عبدالصمد فتحی کا کہنا تھا کہ فلسطین میں یہودی توسیع پسندی کے تازہ رحجان میں اضافے کے کئی اندرونی اور بیرونی محرکات ہیں۔ مقامی سطح پر اسرائیل ارض فلسطین میں خود کو مزید اقتصادی اور سیکیورٹی کےپہلو سے مضوط بنانے کے لیے چپے چپے پر یہودیوں کو آباد کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو وہاں فوجی طاقت کے ذریعے بے دخل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
دوسرا اندرونی پہلو پیش آئند پارلیمانی انتخابات ہیں۔ اسرائیل کی ہر جماعت کو یہ اندازہ ہے کہ وہ صرف انتہا پسند گروپوں کی خوشنودی حاصل کرکے پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہاپسندوں کی خوشنودی کی خاطر ارض فلسطین میں یہودی آباد کاری میں غیرمعمولی پیمانے پر اضافہ کیا جا رہا ہے۔
بیت المقدس میں موجود تمام مقدسات بشمول مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی دست درازی بھی انتہا پسندوں کی رضا اور خوش نودی کے حٓصول کا ایک ذریعہ ہے۔ ایسے میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے کوئی موثر اور جاندار کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے۔ رام اللہ اتھارٹی الٹا اسرائیل کے ساتھ اپنی ہی قوم کے خلاف فوجی تعاون کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی قومی مفاہمت بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔
عبدالصمد الفتحی کا کہنا تھا کہ فلسطین میں اسرائیل کی توسیع پسندی میں اضافےکا ایک دوسرا محرک علاقائی ہے۔ یہ وہ عوامل ہے جس کےتحت اس وقت سیاسی اسلام کے خلاف سیاسی قوتیں اعلانیہ اور در پردہ سازشیں کررہی ہیں۔ چونکہ اس وقت عرب دنیا اپنے اندرونی خلفشارکا شکار ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ موقع اسرائیل کے لیے یہودی توسیع پسندی کے لیے ایک سنہری موقع ثابت ہو رہا ہے۔
عالمی سطح پر بھی دنیا فلسطینیوں کے مسائل کو منصفانہ نظرسے نہیں بلکہ اسرائیل کےساتھ مفادات کی عینک سے دیکھ رہی ہے۔ اس لاپرواہی اور دیدو دانستہ غفلت کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطینی قوم کے خلاف جرائم میں اضافہ کررہا ہے۔ اس وقت فلسطینی قوم پرمظالم اور مقدس مقامات کی بے حرمتی کے جہاں اندرونی اسباب ہیں وہیں عالمی برادری کی جانب دارانہ اور غیرمنصفانہ پالیسی بھی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین