مسجد اقصیٰ کی حفاظت پر رضاکارانہ طورپر مامورفلسطینی شہریوں کوآئے روز یہودی انتہا پسند وں کی قبلہ اوّل پرمنظم یلغار کا سامنا ہے۔ فلسطینی شہری نماز، نوافل محافل ذکرو علم کا اہتمام کرنے کے ساتھ یہودی شرپسندوں کی روک تھام کی مساعی جمیلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سوموار کے روز بڑی تعداد میں یہودی آباد کار مسجد اقصی میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کی آڑ میں داخل ہوئے تاہم فلسطینی خواتین اور مرد نمازیوں نےیہودیوں کی قبلہ اوّل میں داخل ہونے کی متعدد کوششیں ناکام بنا دیں۔مسجد اقصیٰ کی صورت حال پرنظر رکھنے والے "کیو پریس” کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ سوموار کو بیت المقدس، مغربی کنارے اور فلسطین کے سنہ 1948 ء کے مقبوضہ مختلف شہروں سے بڑی تعداد میں شہری قبلہ اوّل میں نماز کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ قبلہ اوّل میں حاضری دینے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
فلسطینی شہریوں کی آمد کے بعد یہودیوں اور مقامی نمازیوں کے درمیان بھی جھڑپیں ہوئیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی خواتین کو قبلہ اوّل میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے انہیں حراست میں لیا۔ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینی خواتین کی ایک فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں ان خواتین کے نام شامل کیے گئے ہیں جنہیں مسجد اقصیٰ میں آنے سے بار بار روکا جاتا ہے۔ صہیونی فوجیوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ فلسطینی خواتین نمازی یہودی زائرین کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوموار کے روز مسجد اقصیٰ کے باب الحطہ کے سامنے سے ناظام ابو رموز نامی ایک خاتون کو حراست میں لے لیا۔ اس پر یہودی آباد کاروں کی راہ روکنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
سوموار کے روز اسرائیلی فوج اور پولیس کی نگرانی اور فول پروف سیکیورٹی میں 22 یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ پردھاوا بولا۔ اس موقع پر فلسطینی خواتین نمازیوں اور معتکفین نے یہودیوں کی آمد کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔