اسرائیل میں صہیونی حکومت کے مظالم کو آشکار کرنے والی ایک یہودی تنظیم "بتسلیم” نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ تل ابیب حکومت ایک منظم سازش کے تحت دریائے اردن کے مغربی کنارے،
غزہ کی پٹی اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں کے درمیان منقسم فلسطینی خاندانوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کر رہی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی تنظیم "بتسلیم” اور دفتر برائے دفاع انفرادی انسانی حقوق کی جانب سے "تاریکیوں کے پیچھے” کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور شمالی فلسطین کے آس پاس عارضی بستیوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ غزہ کی پٹی سے کچھ فاصلے پر آباد فلسطینیوں کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا ہے بلکہ ان کی روز مرہ زندگی کو اجیرن بنانے کے لیے انہیں طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان منتشر فلسطینی خاندانوں کی دکھ بھری داستان انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری کے کردار کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ منتشر فلسطینی خاندانوں کا یہ حال ہے کہ شوہر غزہ شہر میں ہے اور اس کی اہلیہ شہر سے باہرکسی دوسری بستی میں بند ہے۔ دونوں کو ملنے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح غزہ کے اندر اور باہر جگہ جگہ فلسطینی خاندان کئی کئی حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک ہی خاندان کا ایک بچہ مغربی کنارے میں بند، والد شمالی فلسطین کے سنہ 1948ء کے علاقوں میں محبوس اور کوئی دوسرا بھائی غزہ کی پٹی سے ملحقہ کسی بستی میں پریشان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے درمیان شہریوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسرائیلی فوج مغربی کنارے سے غزہ کی پٹی میں تو محدود پیمانے پر شہریوں کی منتقلی کی اجازت تو دیتی ہے مگرغزہ کے کسی شہری کو مغربی کنارے میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ یوں غزہ کے شہریوں کی مغربی کنارے میں داخلے کے لیے دی گئی درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی کی عدالتیں بھی منتشر فلسطینی خاندانوں کی مشکلات کم کرنے میں کوئی ٹھوس کردارادا نہیں کرسکی ہیں۔ اگر کوئی فلسطینی اپنے خاندان کے ملاپ کے لیے اسرائیل کی کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا بھی ہے تو عدالتیں فوج اور صہیونی سیکیورٹی اداروں کے موقف کے مطابق فیصلے دیتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں فلسطینی خاندانوں میں صہیونی فوج کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عدلیہ کے خلاف نفرت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں منتشر فلسطینی خاندانوں کے کئی ایسے حقیقی واقعات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جوان پابندیوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے۔ مثال کے طور پر مغربی کنارے کے شہر جنین میں مقیم ایک شہری نجاح حمدان کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ غزہ کی پٹی میں تھی۔ جہاں اس کا انتقال ہوا۔ حمدان نے والدہ کی فوتیدگی کی خبر سن کر صہیونی فوج سے غزہ جانے کی بارہا اجازت مانگی لیکن اسے غزہ شہر
میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
جنین ہی کی ایک خاتون ام فاطمہ ابو عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بیس سالہ بیٹی غزہ کی پٹی میں ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے ملنے کی کئی بار کوشش کی لیکن صہیونی حکومت اور فوج کی جانب سے ہربار ان کی درخواستیں مسترد کر دیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین