فلسطین کی سب سے بڑی اور منظم مذہبی اور سیاسی جماعت "اسلامی تحریک مزاحمت ” حماس نے الزام عائد کیا ہے کہ مئی کے مہینے میں مغربی کنارے میں صدر محمود عباس
کے زیر انتظام پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں نے جماعت کے چالیس رہ نماؤں اور کارکنوں کو حراست میں لیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی جانب سے جاری ماہانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی انتظامیہ نے مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں مئی میں حماس کے کارکنوں کےخلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا حالانکہ رام اللہ میں حکمراں جماعت الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمتی مذاکرات بھی جاری تھے۔ ان مذاکرات میں سیاسی گرفتاریاں نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی تاہم اس کے باوجود عباس ملیشیا نے حماس کے چالیس اراکین اور رہ نماؤں کو حراست میں لیا، ان میں سے بیشتر سابق اسیران ہیں جو پہلے بھی عباس ملیشیاکی جیلوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔ محرسین میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، اساتذہ، طلباء اور عام شہری شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عباس ملیشیا کی حماس کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی کارروائیاں اس طرح جاری رہتی ہیں جس طرح دشمن فوج اپنے مخالفین پرحملے کرتی ہے۔ عباس ملیشیا کے اہلکار مسلح ہو کر حماس کے کارکنوں کے گھروں کی چادر اور چار دیواری کو پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوتے، خواتین اور بچوں کو زدکوب کرتے، قیمتی اشیاء کی توڑ پھوڑ کرتے اور انہیں اٹھا لیتے ہیں۔ جبکہ گھرمیں موجود مردوں کو حراست میں لے کر انہیں اذیت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ وحشیانہ تشدد کی ایک تازہ مثال چھیس سالہ حماس کے رکن رافت یوسف شلاذہ کی ہے جسے ہولناک تشدد کے بعد حالت خراب ہونے پر رام اللہ کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ حماس سے ہمدردی رکھتا ہے۔
رپورٹ میں فلسطینی پولیس اور اسرائیلی سیکیورٹی اداروں کے درمیان جاری تعاون پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا اپنے بھائیوں کےخلاف دشمن کی فوج کے لیے ایک مخبر اور ایجنٹ کا کردار ادا کرنے لگی ہے۔ جہاں اسرائیلی فوجی آپریشن کی ہدایت کرتے ہیں عباس ملیشیا بغیر کسی تحقیق کےوہاں پہنچ جاتی ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین