فلسطین کی سب سے منظم مذہبی سیاسی جماعت اسلامک تحریک مزاحمت "حماس” کی سیاسی قوت میں اضافے پر اسرائیل میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
صہیونی ماہرین اور سیاسی دانشوروں کا کہنا ہے کہ عرب بہاریہ اور اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کی ڈیلنگ کے باعث حماس کے سیاسی قد کاٹھ میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے اور حماس ماضی کی نسبت زیادہ عوامی مقبولیت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل میں ایک تھینک ٹینک” صہیونی سیکیورٹی اسٹڈی سینٹر” کے ڈائریکٹر یورام شفائٹز اور انسٹیٹیوٹ کی خاتون محقق ایلوناڈرینڈیان نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ "حماس” نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کا سمجھوتہ کر کے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں حماس کو دہرا فائدہ ہوا،کیونکہ ایک جانب ایک ہزار فلسطینیوں کی رہائی سے حماس کی عوامی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا جبکہ دوسری جانب عالمی سفارت کاری کے میدانوں میں بھی اپنا ایک مخصوص مقام پیدا کر لیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل میں بھی حماس کےحوالے سے سوچ تبدیل ہو رہی ہے۔ اس وقت اسرائیل میں حماس کو فلسطین میں فتح کی ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسرائیلی سیاسی اور حکومتی حلقوں میں یہ سوچ تیزی سے پھیل رہی ہے کہ حماس اسرائیل کے ساتھ برابری کی بنیاد پراب ڈیلنگ کرنے لگی ہے جو مستقبل میں اسرائیل کو کسی مزید سخت امتحان میں ڈال سکتی ہے۔
سیاسی حلقوں کے علاوہ بعض سیکیورٹی حلقوں میں بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ حماس اسرائیلی فوجیوں کواغواء کرنے کے بعد انہیں کئی سال تک اپنے پاس مکمل سیکیورٹی اور رازداری کے ساتھ رکھنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو پانچ سال تک تمام انٹیلی جنس اداروں کی رسائی سے دور رکھ کر اس نے اپنی سیکیورٹی قوت کی مضبوطی کا لوہا بھی منوا لیا ہے۔
رپورٹ کےمطابق عرب ممالک میں جاری انقلاب کی تحریکوں میں بھی حماس کا رول مثبت رہا ہے جس کے باعث ان ملکوں کے عوام میں بھی حماس کو بڑی پذیرائی ملی ہے۔ بالخصوص تیونس، لیبیا اور مصرمیں دینی جماعتوں کی مضبوطی نے حماس کو عرب ممالک میں ایک نیا مقام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک اور عرب لیگ بھی اب حماس کے ساتھ فلسطین کی ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر معاملات کر رہی ہے۔