فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اکتوبر کے اوائل سے جاری تحریک انتفاضہ القدس کے نتیجے میں فلسطین میں آباد کیے گئے غاصب یہودی سخت خوف کا شکار ہیں اور اس خوف کی وجہ سے وہ اسرائیل چھوڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حال ہی میں دو اہم ترین اسرائیلی اخبارات” یروشلم پوسٹ” اور "معاریف” نے مشترکہ طور پررائے عامہ کے ایک جائزے کا اہتمام کیا۔ سروے میں اندرون فلسطین، مقبوضہ بیت المقدس اور غرب اردن کے یہودیوں سے رائے لی گئی۔ سروے جائزے میں شامل 77 فی صد یہودیوں نے خود کو اسرائیل میں غیرمحفوظ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امن ومان کی بحالی کی کوئی امید نہیں ہے۔یہودیوں کی اکثریت نے امن وامان کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالات اسی طرح کشیدہ اور خوف کا شکار رہے تو یہودی اسرائیل چھوڑنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ سروے جائزے کے مطابق اسرائیل کا ہر پانچواں شہری فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ سے خوف زدہ ہے اور ملک چھوڑنے کے بارے میں غور کررہا ہے۔
سروے جائزے میں شامل نصف یہودیوں نے کہا کہ وہ اس لیے مذہبی تقریبات میں شرکت نہیں کرتے کیونکہ انہیں فلسطینیوں کی فدائی کارروائیوں کا اندیشہ ہے۔صرف چار فی صد یہودیوں کا کہنا تھا کہ فلسطینی تحریک انتفاضہ نے ان کی زندگی پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا جب کہ اس کے مقابلے میں 96 فی صد یہودیوں نے کہا کہ فلسطینی تحریک انتفاضہ نے ان کی زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
سروے میں شامل 81 فی صد صہیونیوں کا کہنا تھا کہ فلسطینی انتفاضہ نے ان کا طرز زندگی بدل دیا ہے اور 19 فی صد کا بتانا تھا کہ وہ معمول کی زندگی گذار رہے ہیں مگر تحریک انتفاضہ سے خوف زدہ ہیں۔
خیال رہے کہ یکم اکتوبر کے بعد سے فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ کے دوران فلسطینیوں کی مزاحمتی کارروائیوں میں 25 یہودی ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔