مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کی جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں چلے جانے والےشہروں میں فلسطینیوں نے سولہویں سالانہ”مسجد اقصیٰ خطرے” کے عنوان سے کنونشن منعقد کیا گیا۔ اس کے علاوہ اسی مناسبت سے مقبوضہ فلسطین میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
جمعہ کے روز مقبوضہ فلسطینی شہر ام الفخم اور دیگر شہروں میں ہونےوالے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد نےشرکت کی۔ مظاہرین نے اس موقع پر ایک مرتبہ پھر دفاع مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے لیے اپنا تن من اور دھن سب کچھ وارنےکے عزم کا اعادہ کیا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق جمعہ کے روز”مسجد اقصیٰ خطرے” کے عنوان سے مقبوضہ شہروں میں فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تحریک اسلامی کی اپیل پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام امالفخم میں بھی کیا گیا۔ اس موقع پر خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
شرکاء نےہاتھوں میں کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر قبلہ اول کےخلاف صہیونی سازشوں اور بیت المقدس میں یہودی آباد کی شدید مذمت کے ساتھ اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ دفاع قبلہ اول کے لیے انہیں جس طرح کی قربانی دینا پڑی اس سے دریغ نہیں کریںگے۔
ام الفخم میں ہونے والے اس عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک اسلامی کے نائب امیر الشیخ کمال خطیب نے کہا کہ ان کی جماعت نے آج سے سولہ سال قبل1996ء میں مسجد اقصیٰ کولاحق خطرات کے پیش نظرچودہاکتوبرکو”مسجد اقصیٰ خطرے میں” کے عنوان سے جلسے جلوس نکالنے اور سیمینار کا اہتمام کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ گذشتہ سول برس سے تواتر کے ساتھ ہرسال یہ پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان جلسوں اور سیمینارز کے انعقاد کامقصد ایک جانب صہیونیوں کو یہ پیغام دینا ہوتا کہ فلسطینی عوام بیدار ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر اپنی مقدسات کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پروگرامات خود فلسطینیوں کو بیدار کرنے اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتےہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ، بیت المقدس اور فلسطین میں موجود تمام مقدسات کو دشمن کی جانب سےسنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیل اور درغ گوئی اور غلط بیانی کی سیاست عمل کرتے ہوئے بیت المقدس کو یہودی تاریخ کا حصہ ثابت کرنے کے لیے شہر پر یہودیت کا رنگ چڑھا رہا ہے۔ یہودی اور صہیونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بہ حیثیت ایک قوم اور ملت کے متحد ہونا ہو گا۔ ان تمام خطرات وعواقب سے دنیا بالخصوص مسلم امہ کو آگاہ کرنا فلسطینیوں کی ذمہ داری ہیں۔
اسرائیل نے دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے بیت المقدس آمد کے دروازے کھول دیے ہیں، اور دوسری جانب وہاں کے اصلی باشندوں کو نکال باہر کیا جا رہا ہے۔ آئے روز صہیونی درندے فلسطینیوں کےگھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں پراس لیے تشدد کرتے ہیں تاکہ وہ خودہی ظلم وستم سے تنگ آ کر شہر چھوڑ دیں
بیت المقدس کی تاریخ اور مختلف اقوام کے اس تسلط کے بارے میں بات کرنے کے بعد شیخ کمال خطیب نے اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "آج یہ بات میں یہودی حکومت، ان کےمذہیی پیشواؤں اور تمام اہم شخصیات پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ بیت المقدس پر قبضےکا ان کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ بیت المقدس کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پررومنوں،اہل فوارس اور انگریزوں نے قبضے کی سرتوڑکوششیں کی انہیں شرمناک شکست کے بعد شہر سے واپس جانا پڑا ہے۔ اب تمہاری شکست کا وقت بھی قریب آ پہنچا”۔
شیخ کمال خطیب نے تمام فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت قبلہ اول میں گذارنے کی کوشش کریں، کیونکہ فلسطینیوں کی مسجداقصیٰ میں موجودگی ہی یہودیوں کی جانب سے اس لاحق خطرات کا ازالہ کر سکتی ہے۔